ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2007 |
اكستان |
|
حضرت اقدس کا جوابی خط ٧٨٦ محترمی و مکرمی دام مجدکم ! السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ' آپ کا مکتوب موصول ہوا۔ آپ نے اپنا تعارف نہیں کرایا۔ تعارف ضرور کرائیے۔ کہاں پڑھا ہے؟ کن حضرات سے مستفید ہوئے ہیں اور کس طبقۂ فکر سے تعلق ہے؟ یعنی حنفی ہیں یا غیر حنفی؟ (١) میں نے اپنے اساتذہ سے حضرت علی کے اسم گرامی کے ساتھ کرم اللہ وجہہ' زیادہ سُنا ہے۔ جو اِس کی تاریخ ِایجاد خوارج کے جواب میں بتلاتے تھے۔ رضی اللہ عنہ بھی کہا اور لکھا جاتا ہے۔ وہ اور میں اِس کے بھی منکر نہیں۔ اور بعض اکابر ثقات کی تحریرات میں علیہ السلام کا لفظ بھی ملتا ہے۔ نیز کرم اللہ وجہہ' رضی اللہ عنہ سے تو بڑا جملہ نہیں ہے۔ وَرِضْوَان مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرُ تو اِس میں شیعیت کی تقویت کیسے ہوئی اور یہ آپ کو کیوں بعید لگا۔ اِس کی وجہ بھی لکھیں۔ (٢) اِس خاص حدیث کے بارے میں ہمارے اَساتذہ اِسی تشریح کے قریب ہی تشریح کرتے آئے ہیں جو میں نے کی ہے۔ (٣) یہ حدیث نہ باطل ہے نہ صحت کے درجہ کو پہنچتی ہے بلکہ حسن کے درجہ کی ہے۔ حافظ ابن ِ حجر رحمة اللہ علیہ کی یہ رائے ہے اور مجھے اُن کی یہ رائے پسند ہے۔ (٤) حاکم نیسابوری رحمہ اللہ میرے نزدیک اَکابر محدثین میں سے ہیں اور اِن معنی میں ہرگز شیعہ نہیں ہیں جو آج کل سمجھے جاتے ہیں۔ شاید آپ نے اِن کی کتابیں نہیں دیکھیں ورنہ آپ کی رائے اور ہوتی۔ آئندہ جو بات لکھیں اُسکا مکمل حوالہ دیا کریں یا مع سیاق و سباق تحریر فرمایا کریں تا اِفادہ و اِستفادہ سہل ہو آپ کے خط کا آغاز و اِختتام بتلاتا ہے کہ یا تو آپ صحابۂ کرام کے بارے میں کوئی اور اپنی رائے رکھتے ہیں یا پھر قرب و جوار کے شیعوں کی وجہ سے ذہن پر شدید ردّعمل ہے۔ والسلام ١٤ اگست ٧٦ء