ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2007 |
اكستان |
|
یہ دیکھ کر اَز حد حیرت ہوئی کہ آپ نے سیدنا علی کا نام جہاں لکھا اُس کے ساتھ کرم اللہ وجہہ' لکھا۔ حالانکہ باقی تمام صحابۂ کرام کے ناموں کے ساتھ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھا اور بولا جاتا ہے۔ آپ جیسے شیخ الحدیث محقق، فاضل اور اُستاد سے ایسی فحش غلطی؟ صرف آپ نے اِسی پر اِکتفاء نہ کی بلکہ ایک من گھڑت، وضعی اور بالکل کذب پر مبنی روایت ایسے مقام پر چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے جو سیاق و سباق کے لحاظ سے بھی وہاں فٹ نہیں بیٹھتی۔ '' اَنَا مَدِیْنَةُ الْعِلْمِ وَعَلِیّ بَابُھَا '' کا اِس عبارت سے قطعًا کوئی تعلق نہیں۔ آپ کو معلوم ہوگا اور معلوم ہونا چاہیے کہ : ٭ امام ابن ِتیمیہ نے اِس کے متعلق فرمایا ہے کہ : فَعُلِمَ اَنَّ ھٰذَا الْحَدِیْثَ اِنَّمَا افْتَرَاہُ زِنْدِیْق جَاھِل نَطَقَہ مَدْحًا وَھُوَ بِطَرِیْقِ الزَّنَادِقَةِ اِلٰی قَدحٍ فِی الْاِسْلَامِ ۔ ٭ سخاوی کہتے ہیں : لَیْسَ لَہ وَجْہ صَحِیْح ۔ ٭ ملا علی قاری لکھتے ہیں : وَقَالَ ابْنُ مَعِیْنٍ اِنَّہ کِذْب لَااَصْلَ لَہ وَکَذَا قَالَ اَبُوْحَاتِمٍ وَیَحْیَ بْنُ سَعِیْدٍ وَاَوْرَدَہ اِبْنُ الْجَوْزِیِّ فِی الْمَوْضُوْعَاتِ وَاَوْفَقَہُ الذَّہْبِیُّ وَغَیْرُ عَلٰی ذَالِکَ وَقَالَ ابْنُ دَقِیْقِ الْعِیْدِ ھٰذَا الْحَدِیْثُ لَمْ یُثْبِتُوْہُ وَقِیْلَ اِنَّہ بَاطِل وَقَالَ الدَّارُ قُطْنِی غَیْرُ ثَابِتٍ ۔ (موضوعات الکبیر) ٭ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں : حدیث اَنَا مَدِیْنَةُ الْعِلْمِ وَعَلِیّ بَابُھَا رواہ الترمذی من حدیث علی وَقَالَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ مُنْکَر وَاَنْکَرَہُ الْبُخَارِیُّ وَالْحَاکِمُ فِی الْمُسْتَدْرَکِ مِنْ حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ صَحِیْح وَقَالَ الذَّھَبِیُّ بَلْ ھُوَ مَوْضُوْع وَقَالَ اَبُوْذُرْعَة کَمْ خَلْقٍ اِفْتَضَحُوْا فِیْہِ وَقَالَ یَحْیَ ابْنُ مَعِیْنٍ لَااَصْلَ لَہ ۔ (کتاب الحاوی ج ٢ ص ٣٢ طبع اوّل) ٭ شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں : اَخْرَجَہُ النَّاسُ وَفِیْ اَسْنَادِہ جَمَاعَةُ الْمَجْرُوْحِیْنَ وَالْمَجَاھِیْلُ۔ (قرة العینین) ٭ شاہ عبد العزیزلکھتے ہیں : اِس حدیث کو امام نووی، علامہ ذہبی، امام جزری نے مردود قرار دیا ہے۔ (تحفہ اثنا ء عشریہ)