ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2007 |
اكستان |
|
سے بات کرتے تھے کبھی اور کبھی اِنہیں دیکھتے تھے حضرتِ حسن کو۔ تو پھر آپ نے فرمایا کہ یہ میرا بیٹا اِنَّ ابْنِیْ ھٰذَا سَیِّد یہ میرا بیٹا سردار ہے یا سردار ہوگا وَلَعَلَّ اللّٰہَ اَنْ یُّصْلِحَ بِہ بَیْنَ فِئَتَیْنِ عَظِیْمَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ شاید ایسے ہو کہ اللہ تعالیٰ اِن کی وجہ سے یا اِن کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرادے۔ رسولِ کریم علیہ الصلوٰة والتسلیم نے جو فضیلت بیان کی وہ حضرتِ حسن کی بیان کی اِس معاملے میں۔ تو یہ ٤٠ ھ ، ٤١ ھ کی بات بن گئی۔ رسول اللہ ۖ کی وفات سے کوئی تیس اکتیس سال بعد یہ بات ظہور میں آرہی ہے کہ حضرتِ حسن سے وہ بات کررہے ہیں۔ حضرتِ حسن تیار ہوگئے صلح پر اور اَنداز کرلیا تھا اُنہوں نے کہ یہ حکومت چھوڑنے والے نہیں ہیں۔ یعنی وہ شرط اگر یہ کرتے کہ حکومت سے تم بھی اَلگ ہوجائو میں بھی اَلگ ہوجائوں تو حضرتِ معاویہ نہ مانتے اِس بات کو۔ اُنہوں نے یہ کیا کہ اپنے آپ حکومت سے دستبردار ہونا منظور کرلیا، شرائط کرلیں کہ آپ اپنی زندگی میں رہیں گے بعد میں میں ہوں گا وغیرہ ،جو بھی چیز ہوئی لیکن اُنہوں نے خود کو حکومت سے دست کش کرلینا گوارا کرلیا یہ بہت مشکل کام ہے کہ کوئی آدمی حکمران ہوجائے،قوت ملی ہو، اُس کی سپورٹ بھی ہورہی ہو، سب کام چل رہے ہوں، اُسے غلبے کی بھی اُمید ہو، مغلوب نہیں ہوئے وہ کُلّی طور پر، لیکن پھر بھی وہ اِس طرح سے دست کش ہوجائے او ر وجہ اُس کی انہوں نے یہ بتائی کہ یہ اُمت ِ مرحومہ جو ہے جنابِ رسول اللہ ۖ کی اُمت، یہ اپنے ہی خون میں خود بھررہی ہے۔ عَاثَتْ بِدِمَائِھِمْ ١ یہی اُنہوں نے وجہ بتلائی اور پھر اُس مسلح تصادم کو ختم کرنے کا یہ راستہ نکالا کہ خود دست کش ہوگئے، حضرتِ معاویہ کو حکومت دے دی۔ تو حضرت شاہ ولی اللہ صاحبنے ''اِزالة الخفائ'' کے شروع میں ہی لکھا ہے کہ حکومت پر آنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جبرًا آگیا حکومت پر، مُتَسَلِّطْ ہوگیا۔ تو تسلط سے بھی تو حکومت ہو ہی جاتی ہے قائم۔ اَب یہ کہ تسلط ہوجانے کے بعد پھر یہ کہا جائے کہ حکومت اُس کی نہیں ہے ،یہ نہیں کہہ سکتا کوئی، یہ کہہ سکتے ہیں کہ درُست طریقے سے وہ نہیں آئے۔ ١ بخاری شریف میں اِس طرح ہے ''عَاثَتْ فِیْ دِمَائِھَا '' ص ٣٧٣ حکومت صحیح طریقہ سے آئے اور کام غلط کرے تو حکومت غلط، غلط طریقہ سے آئے اور کام