ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2007 |
اكستان |
|
قاتلوں کا گروہ مصری تھا، کوفہ بصرہ کے باغی اُس میں شامل نہ تھے : اب جواُن کے قاتلوں کا گروہ تھا وہ تو مصری تھا۔ باقی جو گروہ باغیوں کے کوفہ سے آئے تھے، بصرہ سے آئے تھے اُن میں سے کوئی آدمی قاتلین کے ساتھ نہیں تھا۔ جو قاتلین میں صرف اہل ِ مصر تھے وہ ''فسطاط'' سے آئے تھے مرکز مصر میں فسطاط تھا اُن کا ۔ تو جن لوگوں نے مارا تھا وہ مارے گئے، باقی جو اُن کا گروہ تھا اَب اُس سارے گروہ کو پکڑا جائے، مارا جائے وہ لمبا کام ہے اور ممکن العمل نہیں ہے۔ حضرتِ علی رضی اللہ عنہ نے اِس بات کو نہیں مانا۔ گروہ کے باقی لوگوں کو قتل کرنا فساد ہوتا ناکہ قصاص : اور پھر حضرتِ معاویہ رضی اللہ عنہ بھی بالآخر اپنے دَور میں عملًااِسی بات کے قائل ہوئے پھر حضرتِ طلحہ، حضرتِ زبیر، حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہم بھی اِسی بات کے قائل ہوئے کہ یہی ٹھیک بات ہے۔ اور سارے لوگوں کو مارنا یہ نیا فساد کھڑا کردینا ہے، اِس سے فساد رَفع نہیں ہوگا، قصاص جو ہے و ہ فساد کو رَفع کردیتا ہے، قصہ ختم ہوجاتا ہے۔یہاں یہ قصاص کے درجے میں نہیں رہتی بات بلکہ لڑائی چھیڑنے کے درجے میں ہو جاتی ہے یہ بہت مشکل کام ہے اور غلط ہے۔ تو کیا سب نے وہی ہے مگر بہت بعد میں۔ جب حضرتِ علی رضی اللہ عنہ کررہے تھے تو اُن پر اِعتراض تھا مگر اُن کے بعد جو دَور آتا گیا تو وہ اِعتراض والی چیزیں خود بخود ہٹتی چلی گئیں۔ اور اَب کتابوں میں جو مسائل ہیں ائمہ کرام کے پسند کردہ یا اِختیار کردہ وہ وہی ہیں جو حضرتِ علی رضی اللہ عنہ کے تھے۔ ایک بات یہ ہے خاص سمجھنے کی کہ اِس سے پہلے میں یہ واقعہ ذکر کردوں کہ حضرتِ علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرتِ حسن رضی اللہ عنہ اُن کی جگہ خلیفہ ہوگئے، لوگوں نے بیعت کرلی۔ پھر وہ ایک بہت بڑا لشکر لے کر چلے۔ جب وہاں پہنچے ہیں شام کے قریب تو یہ صفین جو ہے آج کل غالبًا عراق کا حصہ ہے، عراق اور شام کی یہ سرحد تھی، اُس جگہ جب پہنچے ہیں اَبھی شام نہیں پہنچنے پائے تھے، قریب پہنچے ہیں تو حضرتِ معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرتِ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو بھیجا جو بہت زیرک اور نہایت صاحب ِ بصیرت تھے، حضرتِ معاویہ کے ساتھی تھے، اُنہیں بھیجا کہ جاکر دیکھیں، لشکر کا اَنداز کریں، اُنہوں نے اَنداز کیا کہ بہت بڑا لشکر ہے اور یہ اُس وقت تک ختم نہیں ہوسکتا جب تک اپنے ہم پلّہ لوگوں کو نہ ختم کردے۔ ہم بھی اِتنا ہی بڑا