ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2007 |
اكستان |
|
وقت کا پتہ لگاکر اُس دن عید کرتے ہیں اور برہمنوں کو کھانا کھلاتے اور جیٹھ کے پہلے دن جو اجتماعی (یعنی امائوس) کا دن ہے، عید کرتے ہیں، اور نیا غلہ تبرکاً پانی میں ڈالتے ہیں۔'' (کتاب الہند البیرونی ص ٣٦٧ بحوالہ غیر اسلامی تہوار ص ٩) پتنگ بازی کی خرابیاں : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ' نے قرآن و سنت اور عقل سلیم کی روشنی میں اِس کھیل کی جو خرابیاں بیان کی ہیں وہ ہم کچھ اضافہ، کمی اور ترمیم کے ساتھ اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں : (١) پتنگ کے پیچھے دوڑنا : اِس کا وہی حکم ہے جو کبوتر کے پیچھے دوڑنے کا ہے ،جس میں رسول اللہ ۖ نے دوڑنے والے کو شیطان فرمایا ہے۔ (مسند احمد، ابوداو د، ابن ماجہ، مشکوٰة شریف ص ٣٨٦) (٢) دُوسروں کی پتنگ لُوٹنا : رسول اللہ ۖ کا اِرشاد ہے جسے بخاری و مسلم نے نقل کیا ''نہیں لُوٹتا کوئی شخص اِس طرح لُوٹنا کہ لوگ اُس کی طرف نگاہ اُٹھاکر دیکھتے ہوں اور وہ پھر بھی مومن رہے۔'' یعنی دوسروں کی چیز لُوٹنا ایمان کے منافی ہے۔ اگر کوئی شخص کہے کہ پتنگ لُوٹنے میں مالک کی اجازت ہوتی ہے اِس لیے حدیث شریف کی وعید کا اِس سے تعلق نہیں تو اِس کا جواب یہ ہے کہ مالک کی اجازت ہرگز نہیں ہوتی چونکہ عام رواج اِس کا ہورہا ہے اس لیے خاموش ہوجاتا ہے دل سے ہرگز رضامند اور خوش نہیں۔ اگر اِس کا بس چلے تو وہ خود دَوڑے اور کسی کو اپنی پتنگ نہ لُوٹنے دے۔ یہی وجہ ہے کہ پتنگ کٹ جانے کے بعد آدمی جلدی جلدی ڈور کھینچتا ہے کہ جو ہاتھ لگ جائے غنیمت ہے۔ (٣) ڈور لُوٹ لینا : ڈور لُوٹنے میں پتنگ لُوٹنے سے زیادہ قباحت ہے کیونکہ پتنگ تو ایک ہی آدمی کے ہاتھ آتی ہے اور ڈور کئی لوگوں کے ہاتھ لگتی ہے۔ بہت سے آدمی گناہ میں شریک ہوتے ہیں اور اُن تمام آدمیوں کے گناہ گار ہونے کا باعث وہی پتنگ اُڑانے والا ہوتا ہے اور مسلم شریف کی ایک حدیث کے مطابق اِن سب کے برابر اِس اکیلے اُڑانے والے کو گناہ ہوتا ہے۔ (٤) دُوسرے کو نقصان پہنچانے کی نیت : اس پتنگ بازی میں ہر شخص کی یہ نیت اور کوشش ہوتی ہے کہ دُوسرے کی پتنگ کاٹ دوں اور اُس کا نقصان کردُوں، حالانکہ مسلمان کو نقصان پہنچانا حرام ہے اور اِس حرام فعل کی نیت سے دونوں (یعنی کاٹنے والا اور کٹوانے والا) گناہ گار ہوتے ہیں۔