ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2007 |
اكستان |
|
چڑھائے جاتے ہیں جن کی عمر دس سال سے زیادہ نہ ہو۔ انسانی خون لینے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک لمبی ٹنکی قربانی کے قد کے برابر ہوتی ہے اور اُس کے اندر نیچے سے اُوپر تک سوئیاں لگی ہوتی ہیں۔ قربانی یعنی کسی جوان یا بچہ کو اُس ٹنکی میں کھڑا کرکے جسم میں سوئیاں چبھو دی جاتی ہیں۔ سوئیوں کے ذریعہ سے یہ خون ٹنکی کے نچلے حصہ میں پہنچتا ہے اور نیچے ایک ٹب میں جمع ہوتا ہے۔ اِس جوان یا بچہ پر اِس مجرمانہ عمل کے دوران تہوار منانے والے خونخوار خوش ہوتے ہیں اور تہوار کی رنگ رلیاں مناتے ہیں۔ ١ یا کبھی جانور کی طرح اِس ''قربانی'' کو ذبح کردیا جاتا ہے اور کسی برتن میں خون لے لیا جاتا ہے یا انسانی بھینٹ کی رگیں متعدد مقامات سے کاٹ دی جاتی ہیں۔ خون فوارے کی طرح نکلتا ہے، اُسے کسی برتن میں اکٹھا کرلیا جاتا ہے اور پھر اُسے ''حاخام'' پادری کو دیا جاتا ہے جو خون کے پیاسے یہودی خدا ''یہوہ'' کی رضامندی کے لیے اِس انسانی خون میں گُندھی ہوئی مقدس روٹی تیار کرتا ہے۔ یہودیوں کا یہ تہوار اِس کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتا۔ شروع میں اِسی مقصد کے لیے یہودی کسی عیسائی لڑکے کا خون لیتے تھے کیونکہ وہ اُن کے نزدیک سب سے زیادہ قابل نفرت اور بڑے دُشمن تھے۔ مصنف دزرائیلی نے اپنی کتاب Bentink 1857 Life Of Lord George میں اِس کے بارے میں لکھا ہے : ''خدا کی یہ قوم ملحد کافروں سے تعاون کرتی ہے۔ مال جمع کرنے کے ماہر کمیونسٹوں سے معاہدے کرتی ہے۔ یہ منتخب قوم یورپ کے گرے پڑے انسانوں سے مصافحہ کرتی ہے اور یہ سب وہ ''مسیحیت'' کو تباہ کرنے کے لیے کرتی ہے''۔ بعد کے دَور میں یہ کینہ پرور، مجرم، خونخوار بھیڑئیے اسلام اور مسلمانوں کو بھی اپنا نشانہ بنانے لگے۔(جاری ہے ) ١ سوئیوں والی ٹنکی (ایولی فیجی) از جنرل جواد رِفعت اتیل خان استنبول ١٩٥٨ئ۔ ترجمہ از مجاہد فاروق حمود