ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2007 |
اكستان |
|
اور اُن کی لطافت اور طہارت میں نقصان نہ آوے( کیونکہ اِس کی وجہ سے طہارت باطنی اور گناہوں سے پاکی میسر ہوتی ہے پس یہ مثل وضو کیے ہوئے پانی کے ہے)۔ اور اہل بیت میں بڑی خصوصیت کے ساتھ حضرت فاطمہ کا داخل ہونا ظاہر ہے اور جن حضرات پر صدقہ حرام ہے اُن کے غلام بھی اِس بزرگی میں شریک ہیں۔ چنانچہ صحیح حدیث میں وَارد ہے یعنی اُن کے غلاموں کو بھی صدقہ کھانا حرام اور منع ہے اور جان لو کہ اعمال کی خرابی اور دُرستی میں کھانے پہننے کو بڑا دخل ہے، جس درجہ کا مال حلال انسان استعمال کرے گا اُسی درجہ کی نورانیت پیدا ہوگی، دُعاء قبول ہوگی۔ ایک صحابی نے قبولیت ِ دُعاء کی آرزو کی تھی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ حلال مال کھایا کرو۔ پس معلوم ہوا کہ حلال مال کے استعمال سے دُعاء قبول ہوتی ہے۔ یہ روایت احیاء العلوم میں ہے اور مستن د ہے اور اُسی میں ہے کہ مشتبہ ایک لقمہ کھانے سے چالیس روز تک اعضاء عقل کی نافرمانی کرتے ہیں یعنی عقل طاعت کو کہتی ہے اور عمدہ باتوں کا حکم کرتی ہے وہ قابو میں نہیں آتے۔ اور مشتبہ مال وہ ہے جس کے حلال یا حرام ہونے کا یقین نہ ہو اور دونوں جانب کا احتمال ہو، نہ یہ معلوم ہو کہ اِس میں کس قدر حلال ہے اور نہ یہ خبر ہو کہ کس قدر حرام ہے۔ اور اگر اکثر مال حلال اور کچھ حرام ہو اُس کو بھی مشتبہ کہتے ہیں لیکن ایسے مال کے کمانے والے کو اکثر حلال کی صورت میں بھی کھانا حرام ہے اور دوسرے لوگوں کو مشتبہ مال کھانا مکروہ ہے اور اِس کا بُرا اثر پڑتا ہے لیکن اہل ِصفا اور نورانی قلب کے حضرات اِس قسم کے اثر کو معلوم کرتے ہیں جن کے قلوب پر گناہوں کی ظلمت چھارہی ہے۔ حُبِّ دُنیا کا غلبہ ہے اُن کو تو اِس میں بڑا مزہ آتا ہے واقعی حق نظر نہیں آتا اُس کو جس کے قلب کی بینائی گناہوں کے اندھیرے سے جاتی رہے لہٰذا مناسب ہے کہ انسان حتی المقدور اعلیٰ درجہ کا حلال مال کھاوے اور اگر بڑا پست ہمت ہو تو حرام سے تو ضرور ہی پرہیز کرے کہ اِس سے بچنا ہر شخص پر فرض ہے۔ اَب یہ بھی معلوم کرنا ضرور ہے کہ حضراتِ مذکورین پر صدقہ فرض و واجب مثل زکوٰة، طعام، کفارہ وغیرہ بالاتفاق حرام ہے لیکن بعض علماء نے اِس کے خلاف کہا ہے اور دلیل اُن کی ضعیف ہے قابل التفات نہیں۔ ہاں نفل صدقہ میں اختلاف معتدبہ ہے۔ بعض نے جائز رکھا ہے لیکن اہل تحقیق اِس کے بھی خلاف ہیں۔ محققین ِحنفیہ کے نزدیک (اور یہی قول میرے نزدیک معتمد علیہ اور قابل فتویٰ ہے) صدقہ فرض،