ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2005 |
اكستان |
|
فطاری کرتے اور ساتھ ساتھ حضرتِ شیخ کی ناصحانہ گفتگو سے اِستفادہ حاصل کرتے۔ اُس وقت میں جو مسائل پیش آتے وہ حضرت سے دریافت فرماتے۔ جب عشاء کی نماز اور تراویح سے فارغ ہوجاتے تو حضرتِ شیخ کی صحبت میں سارے مریدین و متعلقین حضرات ایک حلقہ میں جمع ہوجاتے، اس حلقہ میں دو کتابوں کی تعلیم ہوتی، وہ برکت العصر شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب قدس سرہُ العزیز کی تالیف فرمودہ ''تاریخ مشائخ چشت'' تھی ۔ آخری دن ہمارے حضرتِ اعلیٰ شیخ المشائخ مرشدنا وسیّدنا و مولانا الحافظ السےّدحامد میاں قدس اللہ سرہ العزیز کے ذکرِ خیر کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوجاتا۔ اور حضرتِ شیخ تاریخ ِمشائخ چشت خود پڑھتے اور ساتھ ساتھ تشریح اوروضاحت بھی فرماتے اور اکثر اپنے مریدین سے کتاب پڑھواتے اور باقی حضرات ہمہ تن گوش ہوکر سنتے۔تاریخ ِمشائچ چشت کے پڑھنے سے ہمیں تصوف کی اہمیت اور ضرورت کا علم ہوا اور یہ جذبہ پیدا ہوا کہ طالب ِصادق بننا ضروری ہے جس طرح ہمارے مشائخ چشتیہ اور دیگر تمام سلفِ صالحین کا طریقہ رہا ہے کہ اُن حضرات نے دُنیا سے بے رغبتی اور عاجزی و انکساری ، تقویٰ و اطاعت کی جو مثالیں قائم کی ہیں اُن کو ہم نمونہ بنائیں۔ اور دوسری کتاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور سُنتوں کے متعلق''نبوی لیل و نہار'' جس کو حضرتِ شیخ خود پڑھ کر ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری کی اہمیت و ضرورت بیان فرماتے، یہ عمل تقریبًا رات بارہ بجے تک جاری رہتا۔ ٢٩ رمضان المبارک بعد تراویح حضرت شیخ نے اپنے مرید ڈاکٹر محمد امجد صاحب (موہنی روڈ لاہور) کو جنہوں نے تصوف کی تکمیل کرلی تھی ،سلاسل ِاربعہ طیبہ میں اجازتِ بیعت و خلافت دی اور اُن کی دستاربندی فرمائی،نیز مولانا عبد الستار صاحب بہاولنگری کو آپ کی جانب سے چھ سات برس قبل اجازتِ بیعت و خلافت دی جاچکی ہے، اس موقع پر ان کو بھی تبرکاً دستارِ خلافت باندھی گئی۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور دُنیا و آخرت میں اپنی مرضیات سے نوازے۔ آمین۔ اللہ تعالیٰ سلسلۂ چشتیہ کو اقوام ِعالم میں تاقیامت جاری و ساری فرمائے اور مجھ سیہ کار و گنہگار کو بھی اِن مشائخ کے فیوض و برکات سے استفادہ کی توفیق عطاء فرمائے، آمین ۔