ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2005 |
اكستان |
|
حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا ہے کہ : '' تم میں کوئی شخص بری بات ہوتے ہوئے دیکھے تو اُس کو چاہیے کہ ہاتھ سے روک دے اور اگر ہاتھ سے نہیں روک سکتا تو زبان سے روک دے پس اگر زبان سے روکنے کی طاقت نہیں رکھتا تو دل سے تو اُس کو برا جانے اوریہ سب سے کم درجہ کا ایمان ہے''( مشکٰوة شریف ص٤٣٦ج٢)۔ حدیث شریف کے مطابق سب سے کم درجہ دل سے برا جاننا ہے مگر یہاں صورت حال ایسی ہے کہ جب کوئی حکمران دین کی کسی بات پر اعتراض کررہا ہوتاہے تو سامعین خوداُس وقت اُس غلط کا م میں مبتلا ہوتے ہیں مثال کے طورپر جب وہ ڈارھی کا مذاق اُڑا رہا ہوتا ہے تو سامعین میں سے اکثریت نے ڈارھی منڈوائی ہوتی ہے۔جب وہ بے لباسی کو اچھا کہہ رہاہوتا ہے تو سامعین میں سے اکثریت اِسی قسم کے عمل اورذہنیت کی حامل ہوتی ہے۔ جب حکمران رعیت کی اس بے راہ روی کو دیکھتے ہیں تو اُن کو جرأت ہوتی ہے کہ وہ جو منہ میں آئے کہہ دیں۔ مشہور کہ جیسے تمہارے اعمال ہوں گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے۔ اورعوام الناس کے اعمالِ بد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، اِسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم پر بد عمل حکمران مسلط کردئیے گئے ہیں، جب تک عوام الناس اپنی بدعملیوں سے باز نہیں آئیں گے ہم پر خدائی عذاب کی صورت میں ایسے ہی حکمران مسلط رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ عوام الناس کو اپنی بد اعمالیوں سے توبہ کی عملی تو فیق عطا ء فرماے تاکہ ظالم حکمرانوں کے جبر سے مخلوقِ خدا کو نجات نصیب ہو۔ آمین