ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2005 |
اكستان |
|
من بشرنی بخروج صفر بشرتہ بالجنة۔ (موضوعات ملا علی قاری ص ٦٩) '' جو شخص مجھے (یعنی بقول ان لوگوں کے حضور ۖ کو )صفر کے مہینے کے ختم ہونے کی خوشخبری دے گا میں اُس کو جنت کی بشارت دوں گا''۔ اس روایت سے یہ لوگ صفر کے مہینہ کے منحوس اور نامراد ہونے کی دلیل پکڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صفر میں نحوست تھی اسی لیے تو نبی ۖ نے صفر صحیح سلامت گزرنے پر جنت کی بشارت دی ہے۔ اس سلسلے میں یاد رکھنا چاہیے کہ اول تو یہ حدیث ہی صحیح نہیں بلکہ من گھڑت اورموضوع ہے ۔ یعنی حضور ۖ سے صحیح سند کے ساتھ اس کا ثبوت نہیں بلکہ بعد کے لوگوں نے خود گھڑ کر اِس کی نسبت آپ ۖ کی طرف کردی ہے ، چنانچہ خود ملاعلی قاری رحمہ اللہ جو بہت بڑے جلیل القدر محدث ہیںوہ اسے اپنی کتاب ''الموضوعات الکبیر''میں درج فرماکر اس کو بے بنیاد اوربے اصل قرار دے رہے ہیں ۔ دوسرے اس منگھڑت روایت کے مقابلے میں بے شمار صحیح احادیث صفر کے منحوس اور نامراد ہونے کی نفی کررہی ہیں لہٰذا صحیح احادیث کے مقابلہ میں موضوع (من گھڑت )روایت پیش کرنا کسی طرح بھی صحیح نہیں۔ تیسرے بذاتِ خود اس روایت میں صفر کے مہینہ کے منحوس ہونے کی کوئی دلیل بلکہ اشارہ تک بھی نہیں، لہٰذا اس روایت کے الفاظ سے صفر کے مہینے کو منحوس سمجھنا صرف اپنا اختراع اورخیال ہے، چنانچہ اس روایت کے الفاظ پر غور کرنے سے ہر صاحب ِعقل اس بات کو بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ چوتھے تھوڑی دیر کے لیے اس روایت کے موضوع اورمن گھڑت ہونے سے نظر ہٹا کردوسرے قواعد کو سامنے رکھتے ہوئے اگرغور کیا جائے تواس کا صحیح مطلب ان لوگوں کے بالکل خلاف جاتا ہے ، چنانچہ اس کا صحیح مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ۖ کا وصال ربیع الاول کے مہینے میں ہونے والا تھا اور آپ ۖ وصال کے بعد اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے مشتاق تھے جس کی وجہ سے آپ کو ماہِ صفر کے گزرنے اور ربیع الاول کے شروع ہونے کی خبر کا انتظار تھا اورایسی خبر لانے پر آپ ۖ نے اس بشارت کو مرتب فرمایا۔ تصوف کی بعض کتابوں میں اسی مقصد کے لیے اس روایت کو ذکر کیا گیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس روایت کا صفر کی نحوست سے دُور کا بھی تعلق نہیں بلکہ یہ مضمون اورمفہوم خود ساختہ ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایک صورت میں خود یہ روایت خود ساختہ ہے اوردوسری صورت میںاس کا مضمون