ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2004 |
اكستان |
|
آپ کی شان جمالی بھی تھی اور جلالی بھی حلم کی کان تھے اور نیک خصلتوں کا خزانہ تھے ۔ نقش و تعویذش مثال نقش قدر فیض او بر خاص و عامی مثلِ بدر آپ کا نقش وتغویذ ایسا ہوتا تھا جیسا کہ تقدیر کا لکھا۔ آپ کا فیض ہر خاص وعام پر چاند کی روشنی کی طرح عام تھا۔ (تاریخ دیوبند ص ١١١) دیوبند کے لوگوں کو آپ سے کمال درجہ عقیدت تھی ۔دیوبند کے مسلمانوں میں شاید ہی کوئی بچہ ہوگا جس کے گلے میں آپ کا تعویذ نہ ہوتا ہو ۔( تاریخ دیوبند ص ١١١) کیونکہ حاجی صاحب بڑے درجہ کے پیر بھائی تھے اس لیے حضرت والا نے حالات ہیبت کے طریان کے زمانہ میں اپنے اشکالِ باطنی کے متعلق بھی مشورہ لیا تھا جس کے جواب شافی ملنے پر حضرت والا کو اس کا اعتقاد ہو گیا کہ حاجی صاحب علاوہ عملیات میں ماہر ہونے کے شیخ محقق بھی ہیں ۔ اس کا مفصل ذکر انشاء اللہ باب بیعت واستفاضۂ باطنی میں آئے گا ۔( اشرف السوانح ص ١٤٩ و ١٥٠ ،مطبوعہ کتب خانہ اشرفیہ دہلی) ''حضرت والا کی تواضع اور صدقِ طلب بھی قابل صد ہزار آفریں ہے کہ اپنے کو بعد تکمیل بھی کبھی بزرگوں سے مستغنی نہیں سمجھا جب بھی ضروت پیش آئی بلاادنیٰ تامل علاوہ اپنے پیر ومرشد کے اپنے بڑے رتبہ کے پیر بھائیوںسے بھی عرض حال کرتے رہے اور مشورے لیتے رہے چنانچہ علاوہ حضرت مولانا گنگوہی قدس سرہ العزیز کے حضرت حاجی سیّد محمد عابد صاحب دیوبندی سے بھی جو حضرت حاجی صاحب کے خلیفۂ مجاز تھے اس حالت کو ظاہر کیا۔ سیّد صاحب نے بھی حال سن کر حضرت والا کی بہت تسلی فرمائی اور فرمایا کہ یوں سمجھنا چاہیے کہ یہ خطرات قطب میں داخل نہیں ہو رہے بلکہ خارج ہورہے ہیں جیسے اگر چور گھرکے اندر چوری کرنے کے لیے گھسے تب بھی دروازہ پر نظر آتاہے اورگھر والوں کے جاگ پڑنے کے بعد بھاگنے لگے تب بھی دروازہ ہی سے گزرتا ہوا نظر آتا ہے اھ''۔ ''اس قول کو نقل فرماکر حضرت والافرمایا کرتے تھے کہ میں پہلے حاجی محمد عابد صاحب کو بزرگ تو سمجھتا تھا لیکن سچی بات یہ ہے کہ شیخ اور مربی باطن اس درجہ کا نہ سمجھتا تھا لیکن اس ارشاد کو سن کر مجھے معلوم ہوا کہ شیخ اور مربی کامل درجہ کے تھے''۔ (اشرف السوانح جلد اول باب سیزدہم ص ٢٤٨ و ص ١٥٠ ) حضرت مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی رحمة اللہ علیہ نے اپنے رسالہ جزاء الاعمال میں تحریر فرمایا ہے