ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2004 |
اكستان |
|
باباجی کی اصل حقیقت ؟ : ہمارے اکثر علماء و مشائخ جن کا ذہن پہلے ہی سے باباجی کو قبول نہیں کرتا تھا وہ باباجی کی اِ ن مذبوحی حرکات سے اورزیادہ بدظن ہوگئے اوراُنہیں اس بات کی جستجو رہنے لگی کہ کسی طرح باباجی کا کھوج لگایا جائے اور معلوم کیاجائے کہ اُن کی اصل حقیقت کیا ہے اوراُن کے عزائم کیا ہیں؟ اس سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند،حضرت قاری طیب صاحب کی خدمت میں خط لکھا گیا ،حضرت قاری صاحب نے جواباً تحریر فرمایا : ''مولانا عبدالمعبود صاحب کے بارہ میں جتنا علم آپ کوہے اُتنا ہی مجھے بھی ہے جو مسموعات پر مبنی ہے خود اپنی کوئی تحقیق نہیں ، نیز اکابر و اسلاف کی زبان سے نہ کسی سے یہ نام سننے میں آیا اور نہ ہی یہ کہ اس نام کے کوئی صاحب حضرت گنگوہی وحضرت نانوتوی کے ساتھی ہیں اور نہ ہی آج تک یہ سننے یا دیکھنے میں آیا کہ دارالعلوم کے کسی فاضل نے اُن سے کسبِ فیض کیا اگر ایسا ہوتا تو کوئی فاضل تو اپنا حال ذکر کرتا اور کبھی تو اس اہم خبر کا چرچا ہوتا ، اس لیے اس قسم کے امور تو میرے خیال میں فرضی ہیں جن کی کوئی اصل نہیں معلوم ہوتی الخ'' ١ ایک خط حضرت مفتی زین العابدین صاحب رحمہ اللہ کی خدمت میں بھی لکھا گیا، اُس کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا : ''جواباً عرض ہے کہ ہمارا بحری جہاز ٢٣ اپریل ١٩٦١ء مطابق ٧ذی قعدہ ١٣٨٠ھ بروز اتوار شام کو کراچی سے برائے جدہ روانہ ہوا،دوسرے دن خبر ملی کہ جہاز میں ایک ایسے بزرگ ہیں۔ ٢٧اپریل جمعرات کو امیرالحجاج کی وساطت سے ان کا پاسپورٹ منگوایا اور اُس پر جو کچھ لکھا ہواتھا اُسے اپنی اُسی سال کی ڈائری کی اُسی تاریخ میں درج کردیا تھا اوروہ یہ تھا۔ ''سیّد عبدالمعبود ولد عبدالودود معرفت حاجی بدف لیر سٹہ بہاولپور ۔ ٹکٹ نمبر١٢٥١ راشن ٹکٹ نمبر٣٤٠٤ عمر ٦٥ سال '' ٢ اس موقع پر ہم اصل خطوط کا عکس پیش کیے دیتے ہیں تاکہ یہ خطوط تاریخ میں محفوظ ہوجائیں : ١ خط حضرت قاری طیب صاحب محر رہ ٢٦ ربیع الاول ١٣٩١ھ ٢ خط حضرت مفتی زین العابدین صاحب محررہ ١٣ جون ١٩٧١ء