ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2004 |
اكستان |
|
رسالہ کے مرتب نے باباجی کے متعلق اتنا بڑا دعوٰی تو کر دیا لیکن اس کی دلیل کوئی ذکر نہیں کی ۔ تعلیمی خدمات کا تعلق یا تو درس و تدریس سے ہوتا ہے یا تصنیف وتحریر سے ،بہر دوصورت یا تو باباجی کے تلامذہ کا ایک وسیع حلقہ ہونا چاہیے جو تعلیمی خدمات میںمصروف نظرآتا ہو یاپھر باباجی کی معتدبہ مقدار میں علمی تصانیف ہونی چاہئیںجو علماء وعوام میں نظر آتی ہوں لیکن ہمیں نہ تو بابا جی کے تلامذۂ کا کوئی حلقہ نظر آتا ہے اور نہ ہی اُن کی تصانیف ۔اس بناء پر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ راہِ وفا کے مرتب نے باباجی کے متعلق محض خوش عقیدگی سے کام لیتے ہوئے اتنا بڑا دعوٰی کردیا ہے جس کی پرِکاہ کے برابر بھی حیثیت نہیں۔معلوم نہیںراہِ وفا کے مرتبین کو باباجی کے متعلق بلاتحقیق ایسے دعوے پیش کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی ؟ موجودہ دور کے بڑے بڑے فضلاء موجود ہیں جن کی خدمات سے ایک جہان مستفید و مستنیر ہو رہا ہے اُن کی خدمات کا تذکرہ کیا جاتا اُن کی خدمات کو پیش کیا جاتا تو کوئی فائدہ بھی تھا ،ایک ایسی شخصیت جس کی زندگی گوشۂ گمنامی میں گزرگئی اُسے اس طرح متعارف کرانے سے کیا حاصل؟ بانی ریاست سوات اور جرنیل جہاد آزادی ؟ راہِ وفا کے ٹائٹل پیچ پر صندل باباجی کے شیخ حضرت سنڈا کے باباجی کے متعلق جو القاب ذکر کیے گئے ہیں ۔اُن میں آپکو جرنیل جہاد آزادی اور بانی ریاست سوات قرارد یا گیا ہے۔تاریخی طورپر یہ بات بھی صحیح نہیں ہے اس لیے کہ جرنیلِ جہادِ آزادی سنڈا کے باباجی کے شیخ الشیخ حضرت اخوند عبدالغفور صاحب ِ سوات ہیں نہ کہ سنڈا کے بابا جی نیز سوات اور بونیرپر حملہ آور انگریزی فوج سے مقابلہ کے لیے حضرت اخوند صاحب نے مجاہدین کی کمان کی تھی اور آپ کی سرکردگی میں کیے جانیوالے جہاد کی بدولت ہی انگریزی فوج کو ناکام جانا پڑا تھا۔حضرت سنڈا کے باباجی تو بہت بعد میں جہاد آزادی میںشریک ہوئے تھے۔ اسی طرح بانی ریاست ِسوات بھی حضرت اخوند صاحب ہیں نہ کہ سنڈا کے باباجی کیونکہ حضرت اخوند صاحب ہی کی تحریک اور جدوجہد کے صلہ میں سوات کی شرعی حکومت قائم ہوئی جس کے امیر شریعت سید اکبر شاہ صاحب مقرر ہوئے اور موضع غالیگی کو دارالخلافہ قرار دیا گیا ،تفصیلات کے لیے ملاحظہ کیجیے ''قطب ِسوات'' مصنفہ حضرت سیّد نفیس الحسینی شاہ صاحب دامت برکاتہم ۔ ''راہِ وفا'' ص١١ میں حضرت سنڈا کے باباجی رحمہ اللہ کے حالات کے ضمن میں سیاحت اورسفر حجاز کی سرخی کے تحت مرتب نے باباجی عبدالمعبود کا تذکرہ بھی کیا ہے جس میں اُنھوںنے بتلایا ہے کہ سفر حجاز اور قیام مکہ ومدینہ کے دوران جن حضرات کو حضرت سنڈا کے باباجی کی معیت نصیب ہوئی ان میں ایک باباجی عبدالمعبود بھی ہیں جو حضرت حاجی صاحب اوراُن کے خلفاء