ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2004 |
اكستان |
|
آپ کے زمانۂ اہتمام کی مجموعی طورپر مدت دس سال ہوتی ہے ۔( تاریخ دیونبد ص٤٨١ و تاریخ دارالعلوم ص٢٢٥ ج٢ ) ١٣١٠ھ /١٨٩٢ء میں جب حضرت حاجی محمد عابد صاحب اہتمام سے مستعفی ہوئے تو یکے بعد دیگرے دومہتمم مقرر ہوئے مگر ایک ایک سال سے زیادہ اہتمام نہ کرسکے ۔ ہر سال کے تغیرات کی وجہ سے دارالعلوم کے نظام میں اختلال پیدا ہونے لگا تو ١٣١٣ھ / ١٨٩٥ء میں حضرت گنگوہی قدس سرہ کے ظلّ ہمایو ں نے اہتمام کے لیے حضرت نانوتوی قدس سرہ کے صاحبزادے مولانا حافظ محمد احمد صاحب کا انتخاب فرمایا ۔آپ حضرت شیخ الہند کے استاد زادے تھے اورشاگرد بھی تھے ۔ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب سے ترمذی شریف کے کچھ اسباق پڑھے اور دورۂ حدیث گنگوہ میں حضرت اقدس گنگوہی قدس سرہ سے پڑھا ۔وہیں جلالین اور بیضاوی پڑھی۔ ١٣٠٣ھ/ ٨٨٥اء میں بحیثیت مدرس دارالعلوم میں تقررہوا اورمختلف علوم وفنون کی کتابیں پڑھانے کی نوبت آئی بلکہ زمانۂ اہتمام میں بھی صحیح مسلم ،ابن ماجہ ،مشکٰوة، جلالین ،مختصر المعانی ،رسالہ میرزاہدوغیرہ کتابیں نہایت شوق سے پڑھاتے رہے ۔١٣١٣ھ سے ١٣٤٧ھ تک آپ کا دور اہتمام رہا رحمہ اللّٰہ رحمة واسعة (ماخوذ از تاریخ دیوبند ص٤٨٦ ) حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ کے اس اختلاف کا ذکر جو مدرسہ کے بعض حضرات سے تھا کہیں کہیں تحریرات میں ملتا ہے مثلاً حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة اللہ علیہ کی سوانح حیات ''اشرف السوانح'' میں تحریرہے : ''حضرت والا بھی اتنا ادب ولحاظ فرماتے تھے کہ جس زمانۂ میں حاجی صاحب سے مدرسہ دیوبند کے بعض حضرات کو کشیدگی ہوگئی تھی حضرت والا کا اتفاق دیوبند تشریف لے جانے کا ہوا۔ پرانے تعلقات کی بناء پر حضرت والا کے دل نے یہ گوارا نہ کیا کہ حاجی صاحب سے نہ ملا جائے۔ ادھر اپنے حضرات اساتذہ کالحاظ بھی ضروری تھا ۔حضرت والا کو سخت کشاکشی پیش آئی بالآخر ہمت کرکے حضرت مولانا محمود حسن سے بادب عرض کیا کہ حضرت پرانے تعلقات کی بناء پر میں جب کبھی دیوبند حاضر ہوتا ہوں حضرت حاجی سیّد محمد عابد صاحب کی خدمت میں بھی ضرور حاضری دیا کرتا ہوں ۔ اب کی مرتبہ بڑی کشمکش میں مبتلا ہوں اگر حاضر نہیں ہوتا توسخت بے مروتی اور بیوفائی سی معلوم ہوتی ہے اگر حاضر ہوتا ہوں تو ممکن ہے مدرسہ کی مصالح کے خلاف ہو۔ مولانا نے فرمایا نہیںنہیں ضرور جائو مصالح کے خلاف نہیں بلکہ اس میں مدرسہ کی یہ مصلحت ہے کہ ان کی مخالفت کم ہوگی''۔ (اشرف السوانح ص ١٤٩ ) یہ مخالفت یا ناراضگی جس قسم کی بھی تھی خفیف ہی تھی کیونکہ حضرت تھانوی کے تعلق یا عقیدے میں کوئی فرق نہیں