ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2017 |
اكستان |
|
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور حضرت حافظ ضامن شہید بنفس ِ نفیس شریک رہے، بعض مخالفین کے پروپیگنڈہ کے باعث اسے ''غدر'' کہا جاتا ہے حالانکہ یہ تحریک ''تحریک ِ آزادی'' تھی۔ (٣) تیسری تحریک علمائِ صادق پور کی زیر قیادت عرصہ دراز تک جاری رہی اور ١٨٨٢ء کے مشہور مقدمہ انبالہ پر ختم ہوئی۔ (٤) چوتھی تحریک شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمة اللہ علیہ کے زیر قیادت تھی جو ''تحریک ِشیخ الہند'' یا ''تحریک ِ ریشمی رومال'' کے نام سے مشہور ہوئی ،اس تحریک نے ١٩٢٠ء میں حضرت شیخ الہند کی ہدایت کے بموجب مقامی حریت پسندوں کے بلا تفریق ِمذہب و ملت اتحاد و اشتراک کے ذریعہ سے ''حصولِ آزادیِ وطن کی جدو جہد'' کی شکل اختیار کر لی اور عدم ِ تشدد کا راستہ اپناتے ہوئے سیاسی میدان میں انگریز سامراج سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ آج سے سو سال قبل ٢٨ صفر المظفر ١٣٣٨ھ/ ٢٢ نومبر ١٩١٩ء دہلی میں'' خلافت کانفرنس'' منعقد ہوئی ،خلافت کانفرنس کے بعد پچیس علماء اکٹھے ہوئے اور ٣٠ صفر المظفر ١٣٣٨ھ/ ٢٤ نومبر ١٩١٩ء کو ''جمعیة علمائِ ہند'' کا قیام عمل میں آیا ،مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے ،امر تسر میں ٢٨ دسمبر ١٩١٩ء تا یکم جنوری ١٩٢٠ء اس کا جلاسِ عام منعقد ہوا۔ ٨جون ١٩٢٠ء کو حضرت شیخ الہند مالٹا کی قید سے رہا ہو کر واپس ہندوستان پہنچے توحضرت مولانا تاج محمود امروٹی کی زیر صدارت جمعیة علمائِ ہند کے ایک اجلاس میں آپ سے صدارت قبول کرنے کی درخواست کی گئی جسے آپ نے قبول فرمایا، چند ماہ بعد جمعیة علماء ِ ہند کا دوسرا اجلاسِ عام ١٩، ٢٠، ٢١ نومبر ١٩٢٠ء کو دہلی میں حضرت شیخ الہند کی زیرِ صدارت منعقد ہوا، آپ جامعہ ملیہ علی گڑھ بھی تشریف لے گئے اور اپنے خطبہ ٔ صدارت میں زرّیں ہدایات دیں جس کی وجہ سے جدید تعلیم یافتہ طبقہ علماء کے قریب ہوا اور بہت ساری غلط فہمیاں دُور ہوئیں،آپ نے مدرسوں اور حجروں میں بیٹھے ہوئے گوشہ نشین علماء کو عوام کی رہنمائی کے لیے باہر نکلنے کی ترغیب دی، بدقسمتی سے ٣٠ نومبر ١٩٢٠ء کو حضرت