ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2017 |
اكستان |
|
جس کا قرآن شریف میں حکم ہے تدبر یعنی غوروفکر اور سمجھنے اور سوچنے ہی سے حاصل ہوتی ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ اُس تلاوت سے کیا نفع جس میں سمجھنے سے واسطہ نہ ہو۔ ختم قرآن کی تعداد بڑھانے کا خیال مت کرو کہ چاہے سمجھویا نہ سمجھو مگر نام ہو جاوے کہ اتنے قرآن شریف ختم کیے ،یادرکھو کہ اگر تم سوچ سمجھ کر ایک ہی آیت کو رات بھر پڑھتے جائو گے تو یہ پچاس قرآن ختم کرنے سے بہتر ہوگا۔ دیکھوجناب رسول اللہ ۖ نے ایک دفعہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بیس دفعہ دہرایا ہے اور حضرت ابوذ ر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شب جناب رسول اللہ ۖ نے تمام رات ایک ہی آیت کو بار بار پڑھا وہ آیت یہ تھی ( اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ) یااللہ ! اگر تو اِن کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر بخش دے تو بیشک تو زبردست حکمت والا ہے حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ آیت (اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّأَتِ )'' کیا گناہوں کے مرتکب ہونے والوں کا گمان یہ ہے کہ ہم اُن کو نیکوکاروں کے مساوی بنادے گے''کو تمام شب بار ہا پڑھتے رہے اور حضرت سعید بن جبیر رحمة اللہ علیہ نے آیت ( وَامْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّہَا الْمُجْرِمُوْنَ ) ''اور علیحدہ ہو جائو آج کے دن کے اے مجرمو'' کو بار بار پڑھنے میں تمام رات ختم کر دی۔ ایک عارف فرماتے ہیں کہ میں ہرہفتہ میں ایک ختم پڑھتا ہوں اور ایک ختم ہر مہینے میں اور ایک ایسا ہے کہ جس کو سال بھر میں ختم کرتا ہوں اور ایک تلاوت ایسی بھی ہے جس کو تین سال سے شروع کر رکھا ہے اور اب تک پورا کلام مجید نہیں ہوا۔یہ فرق ظاہر ہے کہ فکروفہم اور غوروتدبر ہی سے ہوتا ہے کیونکہ انسان کا دل ہر وقت یکساں نہیں رہتا اور نہ ہمیشہ مساوی درجہ کے غوروفکر کا عادی ہوتاہے اس لیے اگر خصوصیت کے ساتھ ایک ختم علیحدہ طور پر تم بھی ایسا شروع کر لو جس میں سوچ سمجھ کر تلاوت کی جائے اور صرف اُسی وقت پڑھا جائے جبکہ قلب فارغ ہونے کی وجہ سے غوروفکر کر سکے اور معنی اچھی طرح سمجھ سکے تو بہت اچھا ہے کیونکہ اس صورت میں تلاوت کے معمول میں بھی فرق نہ آئے گا اور فضیلت کا درجہ بھی حاصل ہوجائے گا۔