نماز کے مفسدات |
ماز کے د |
|
کلام فی الصلوۃ کی مُمانعت: حضرت زید بن ارقمفرماتے ہیں کہ ہم لوگ پہلے نماز میں ایک دوسرے سے بات چیت کرلیا کرتے تھے،چنانچہ ہم میں سے کوئی اپنے کسی بھائی سے اپنی حاجت کیلئے بات کرلیا کرتا تھا ، یہاں تک کہ ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاَةِ الوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ﴾نازل ہوئی اور ہمیں نماز کے دوران خاموشی اختیار کرنے کا حکم دیدیا گیا ۔«كُنَّا نَتَكَلَّمُ فِي الصَّلاَةِ يُكَلِّمُ أَحَدُنَا أَخَاهُ فِي حَاجَتِهِ» حَتَّى نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: {حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاَةِ الوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ} [البقرة: 238] «فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ»۔(بخاری:4534) حضرت مُعاویہ بن حکم سُلمینبی کریمﷺکا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں کہ بے شک اِس نماز میں لوگوں کے کلام کے مُشابہ کوئی چیز درست نہیں، یہ نماز تو تسبیح ،تکبیر اورقرآن کریم کی تلاوت کا نام ہے۔إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ، إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ۔(مسلم:537)بغیر عُذر کے کھانسنا بغیر عُذر کے اِس قدرکھانسناکہ جس سے کم از کم دو حرفوں کی آواز پیدا ہوجائے ، جیسے : اُحْ اُحْ۔ اِس سے بھی نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ عذر کا مطلب یہ ہے کہ طبیعت خراب ہو یا کوئی غرضِ صحیح یعنی معقول وجہ ہو ، مثلاً :تحسینِ صوت کیلئے کھانسا جائےیعنی قراءت کرنے والااپنے گلے اور آواز کو صاف کرنے کیلئے کھانسے یا اپنے امام کو کسی غلطی پر