استحضار عظمت الہیہ |
ہم نوٹ : |
|
رحمۃ اللہ علیہ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوئے تو خوا جہ صاحب نے کہا کہ اب تو خانقاہ چمک جائے گی کیوں کہ مشرقِ وسطیٰ میں علامہ سید سلیمان ندوی کے علمی کارناموں کا غلغلہ مچا ہوا تھا، وہ مِڈل ایسٹ یعنی مشرقِ وسطیٰ میں نامور تھے۔ حضرت نے فرمایا کہ خواجہ صاحب! کیا سید سلیمان ندوی کے مرید ہونے سے میری عزت ہوگی؟ اشرف علی کی عزت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، پھر حضرت نے جوش میں آکر فرمایا اگر سارے عالم کے بادشاہ مسلمان ہو کر مجھ سے مرید ہوجائیں تو بھی اشرف علی کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تعلق ہے اس میں ایک اعشاریہ بڑائی نہیں آئے گی۔ اللہ والے بہت بڑی نعمت ہیں، لوگ سمجھتے نہیں، پہچانتے نہیں، اور یہ چیز سمجھانے کی نہیں ہے، اگر کوئی پوچھے کہ اللہ کی محبت، ولایت اور اللہ کی دوستی سے دل میں کیا مزہ آتا ہے تو کوئی بڑے سے بڑا ولی اللہ اس کو بتانہیں سکتا اوراس کی دلیل کتنی عمدہ ہے کہ دنیا محدود ہے، جب محدود لذّت کی تعبیر کے لیے محدود لغت کافی نہیں ہوتی تو حق تعالیٰ کی غیر محدود ذات کی لذّت غیر محدود اور بے مثل کی تعبیر محدود لغت سے کیسے بیان کی جاسکتی ہے؟ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ 16؎ میں نکرہ تحت النفی ہے اور اِنَّ النَّکِرَۃَ اِذَا وَقَعَتْ تَحْتَ النَّفْیِ تُفِیْدُ الْعُمُوْمَ ، جب نکرہ پر نفی داخل ہوتی ہے تو عموم کو مفید ہوتی ہے، لہٰذا جب اللہ کی ذات بے مثل ہے تو ان کی لذّتِ یاد بھی بے مثل ہے، حوریں بھی اس کے مقابلے میں کچھ نہیں ہیں۔ جنت کی حوریں بھی اللہ کی یاد کی لذّت کی مثل نہیں ہوسکتیں کیوں کہ حوریں حادث ہیں اور اللہ کی ذات قدیم اور واجب الوجود ہے، بے مثل ہے، اللہ کے نام میں جو مزہ ہے دونوں جہاں میں نہیں ہے۔ حکیم الامت فرماتے ہیں کہ تم لوگ ایسے نہیں سمجھو گے، دنیاوی مثال سے بات جلد سمجھ میں آتی ہے، پھر فرمایا کہ دیکھو! ایک لڑکی نے دوسری لڑکی سے پوچھا کہ سنا ہے بہن تمہاری شادی ہوگئی ہے؟ تو لڑکی نے کہا کہ ہاں بہن شادی تو ہوگئی۔ کہا کہ تم کو کیا مزہ ملا، ذرا ہمیں بھی بتاؤ۔ تو اس نے کہا جب تیرا بھی بیاہ ہووے گا تب تجھے مجا (مزہ) معلوم ہووے گا۔ آہ دوستو! ہنسنے کی تو بات ہے مگر میں دردِ دل سے کہتا ہوں کہ کیا اس _____________________________________________ 16؎الاخلاص:4