اسلامی مملکت کی قدر و قیمت |
ہم نوٹ : |
|
اور اسی جہاد کی تیاری کے لیے مولانا شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ اپنی مسجد فتح پوری میں جون کے مہینے میں بارہ بجے دن میں سخت دھوپ میں پیدل جنوب سے شمال اور شمال سے جنوب ننگے پاؤں چلتے تھے، لوگوں نے کہا کہ یہ دھوپ میں اپنے پیر کیوں جلارہے ہو، فرمایا کہ میں بالاکوٹ کے پہاڑوں پر جہاد کی تیاری کررہا ہوں۔ اگر نازک بنوں گا تو جہاد کیسے کروں گا؟ دو بدعتی قتل کرنے آئے تو دیکھا کہ مولانا بارہ بجے کی دھوپ میں مسجد کے صحن میں ننگے پاؤں چل رہے تھے۔ پوچھا: مولانا! یہ کیا کررہے ہو؟ کہا کہ سکھوں سے بالاکوٹ میں جہاد کرنا ہے، اپنے مظلوم مسلمانوں کو نجات دلانی ہے۔ دونوں نے کہا کہ بھلا ایسے شخص کو ہم قتل کریں گے جو اللہ کے راستے میں اس طرح جان دینا چاہتا ہے۔ دونوں نے اپنی حماقت پر اپنا سر پیٹ لیا اور کہا توبہ توبہ لاحول ولاقوۃ الا باللہ ہمیں لوگوں نے غلط بتایا۔ مولانا شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بتایا کہ سخت بارش میں دہلی کا دریائے جمنا بھرا ہوا، سینہ تانے ہوئے بہہ رہا ہے، حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہید بارش کے زمانے میں دریائے جمنا کے سیلاب میں کودتے تھے تو تیرتے ہوئے آگرہ تک چلے جاتے تھے۔ کس لیے؟ مشق کرتے تھے کہ اگر جہاد میں کوئی دریا، دریائے جہلم، دریائے راوی وغیرہ پڑجائے اور اس میں کودنا پڑے تو ہم تیر سکیں۔ دہلی اور آگرہ میں کتنا زیادہ فاصلہ ہے، اتنی دور جاکر نکلتے تھے۔ یہ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی روایت ہے۔ میرے اور ان کے درمیان کوئی راوی نہیں ہے۔ اُولٰئِکَ اٰبَائِیْ فَجِئْنِیْ بِمِثْلِھِمْ کیا جذبۂ جہاد تھا کہ دہلی سے آگرہ تک تیرنے کی مشق کرتے تھے۔ اللہ کے راستے کی مشقت کی لذت مولانا اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ اور سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر دو عورتوں نے توبہ کی، جو بہت مال دار تھیں اور پہلے بُرا پیشہ کرتی تھیں۔ جب ان حضرات نے جہاد کے لیے اعلان کیا، تو ان عورتوں نے رونا شروع کردیا کہ ہم ایک گندی زندگی سے اولیاء اللہ والی زندگی میں آگئے، اب ہم کو چھوڑ کر آپ لوگ کہاں جارہے ہیں؟ ہم فاسقانہ حیات سے، نافرمانی کی