اسلامی مملکت کی قدر و قیمت |
ہم نوٹ : |
|
یعنی ایمان کا کباب تو ہے، مگر کچا ہے، تلا ہوا نہیں ہے، اسی لیے جو کھاتا ہے وہ تھوک دیتا ہے۔ لہٰذا میں مسلمانوں کو، مولویوں کو یہی کہتا ہوں کہ کچھ دن مجاہدہ کرلو، گناہ سے بچو، مگر مجاہدہ اﷲ والوں کے مشورہ سے کرو، کیوں کہ جہاں مجاہداتِ صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں وہاں اصل اہمیت آغوشِ صحبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے، اگر یہی صحابہ رضی اللہ عنہم جہاد اور مجاہدہ کرتے اور صحبتِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کی آغوشِ تربیت نہ ملتی تو صحابہ رضی اللہ عنہم کو یہ مقام نہیں مل سکتا تھا۔ علمائے خشک کی ناقدری کی وجہ لوگ کہتے ہیں کہ مولویوں کی تقریر میں مزہ نہیں آتا۔ مزہ اس لیے نہیں آتا کہ ہم نے صحبتِ اہل اﷲ نہیں اٹھائی، ہم مجاہدے سے نہیں گزرے، دیکھیے! میں اپنے کو شامل کرکے کہہ رہا ہوں کہ ’’ہم نہیں گزرے‘‘ تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ یہ تو میرے ہی لیے کہہ رہے ہیں، میری ہی طرف رخ ہے۔ نہیں! ہمارے بزرگوں نے ہمیں سکھایا ہے کہ اپنے کو شامل کرو، لہٰذا جب کوئی شخص یہ کہے کہ کیا بُراحال ہے لوگوں کا تو سمجھ لو کہ سب سے بُرا انسان یہ خود ہے، لہٰذا اپنے کو پہلے شامل کرو کہ ہم لوگ مجاہدے سے نہیں گزرے۔ جنہوں نے اپنے کو مجاہدے سے گزارا، اﷲ نے آج بھی ان کی تقریر میں درد رکھا ہے ؎ مجھ کو جب وادئ حسرت سے گزارا اس نے ہر بُنِ مو سے مرے خون کا دریا نکلا لاکھ دنیا کے حاسدین جمع ہوکر مجاہدات سے گزرے ہوئے لوگوں پر خاک ڈالیں لیکن ان کی نسبت مع اﷲ کے آفتاب کو چھپا نہیں سکتے، ان کا دردِ دل چھپ نہیں سکتا۔ اس پر میرا ایک شعر سن لیجیے ؎ ایک قطرہ وہ اگر ہوتا تو چھپ بھی جاتا کس طرح خاک چھپائے گی لہو کا دریا جو اﷲ کو خوش کرنے کے لیے اپنی بُری خواہشات کا، اپنی حرام تمناؤ ں کا خون کرتا ہے، بُری خواہشات کے خون کا دریا جس کے دل میں بہت ہے اس کے دریائے خونِ دل اور خونِ تمنا کو کوئی نہیں چھپا سکتا۔ میرے شیخ کی یہ بات یاد کرلو۔ فرماتے تھے کہ جب کوئی غیر عالم اﷲ والا