اسلامی مملکت کی قدر و قیمت |
ہم نوٹ : |
|
بنتا ہے تو وہ صاحبِ نور ہوجاتا ہے، لیکن جب عالم اﷲ والا بنتا ہے تو وہ نورٌ علیٰ نور ہوجاتا ہے، ایک علم کا نور اور ایک اس کے تقویٰ اور ذکر و فکر کا نور۔ تو یہ فرمایا کہ دیکھو! کچا کباب کھاکر متلی ہونے لگتی ہے اور آدمی اسے تھوک دیتا ہے لیکن اگر تل دیا جائے تو دور تک اس کی خوشبو پھیل جاتی ہے، پھر کہنے کی ضرورت نہیں رہتی کہ کس محلے میں کباب کی دوکان ہے، دور دور تک اس کی خوشبو اس کا پتا بتاتی ہے۔ کباب پر ایک لطیفہ ہندوستان میں شاہی مسجد جونپور کے مدرسے میں میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ اور میاں اصغر دیوبندی رحمۃ اﷲ علیہ دونوں بزرگ پڑھاتے تھے، وہاں ایک ہندو مسلمان ہوا، پھر ایک دفعہ کہیں سے مدرسے میں گائے کے کباب کی دعوت آئی، طالب علموں کی دعوت آتی رہتی ہے، تو جب اس نے کباب کھایا تو اس کو اتنا مزہ آیا کہ پھر جب کچھ دنوں تک دعوت نہیں آئی تو ساتھیوں سے کہتاتھا کہ ’’ کیا ٹٹبوے لیے پھرٹ ہو، ارے! کہوں ڈاوٹ واوٹ بھی ہے؟‘‘ یعنی کیا صرف کتاب ہی لیے پھرتے ہو، ارے! کہیں کباب کی دعوت بھی ہے؟ وہ توتلا تھا، میرے شیخ حضرت پھولپوری رحمۃاللہ علیہ اس کی توتلی زبان کی نقل کرکے ہمیں سنایا کرتے تھے۔ اﷲ ہمارے دلوں میں اپنے دردِ محبت کا کباب داخل کردے ؎ زمانہ بڑے غور سے سن رہا تھا ہم ہی تھک گئے داستاں کہتے کہتے میرے شیخ فرماتے تھے کہ ’’اس کے جرے تو کس نہ بسائے‘‘یہ پوربی زبان کا جملہ ہے، یعنی جو اپنے کو خدائے تعالیٰ کے واسطے جلا کے خاک کردیتا ہے تو اس کی خوشبو کیوں نہ اڑے گی۔ خوشبوئے نسبت و مجاہدہ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب دامت برکاتہم کی خوشبو تو جاکر دیکھو۔ آج بڑے بڑے علمائے ندوہ ان کے قدموں میں ان سے دعائیں لینے آتے ہیں۔ حضرت نے بارہ سال اپنے شیخ کی خدمت کی، مجاہدات سے گزرے اور اس کے بعد جب دین کی تبلیغ شروع کی تو اتنے ستائے گئے کہ فرماتے ہیں ؎