اسلامی مملکت کی قدر و قیمت |
ہم نوٹ : |
|
بیا مظلوم اکنوں در کنارم اے مظلوم! جلدی سے میری آغوشِ رحمت میں آجا، یعنی میں تجھ کو جلد شہادت دینا چاہتا ہوں اور پھر وہ شہید ہوگئے تو وہ بڑے میاں جو اس جہاد میں شریک تھے انہوں نے آسمان سے آنے والی اس آواز کو سنا اور انہوں نے میرے شیخ کو سنایا اور حضرت نے مجھ کو سنایا۔ یعنی آسمان سے آواز سننے والے میں اور مجھ میں صرف ایک راوی ہے اور وہ ہیں میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ۔ حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کا واقعہ اب ایک اور واقعہ پیش کرتا ہوں، سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ نے بالا کوٹ میں فجر کی نماز پڑھی، اشراق تک اللہ سے مشغول رہے، پھر اشراق کی نماز پڑھی اور انہیں نہیں معلوم کہ آج ان کی شہادت ہونے والی ہے۔ مجاہدانہ لباس پہنا، تلوار ننگی کی کہ اتنے میں لاہور سے ایک سی آئی ڈی مسلمان آیا اور کہا کہ لاہور کا ایک مسلمان بہت بڑا افسر ہے جو سکھوں کے ہاں نوکر ہے، آپ کی محبت میں اس نے خفیہ خط دیا، اس خط میں کیا لکھا ہے آپ پڑھ لیجیے۔ اس میں لکھا تھا کہ آپ بھاگ جائیے اور سکھوں کی بہت بڑی فوج آرہی ہے، امیدِ فتح نظر نہیں آتی، آپ کی زندگی مجھے عزیز ہے، اس لیے لکھ رہا ہوں کہ آپ فرار اختیار کرلیجیے ، چھپ جائیے، روپوش ہوجائیے۔ سید احمد شہید نے یہ خط پڑھ کر جو جواب دیا وہ سننے کے قابل ہے۔ فرمایا کہ جب مجاہد تلوار کو گردن میں لٹکالیتا ہے پھر وہ اللہ کے راستے سے پیٹھ پھیر نہیں سکتا،یہ مومن کی شان کے خلاف ہے، ہمیں ایسی زندگی نہیں چاہیے، ہمیں روپوشی نہیں چاہیے، ہم تو جان دینے کےلیے آئے ہیں، لہٰذا فرمایا کہ اس خط کو لے جاؤ اور اس افسر سے میرا سلام کہو اور یہ کہہ دو کہ سید احمد کو آج دو کام کرنے ہیں، یا تو میں جہاد میں فتح حاصل کرکے غازی بنوں گا اور لاہور پر میرا جھنڈا لہرائے گا یا پھرمیں آج شہادت کا جام نوش کرکے اللہ سے ملوں گا۔ اُولٰئِک اٰبَائِیْ فَجِئْنِیْ بِمِثْلھِمْ یہ ہیں ہمارے اکابر، ان جیسا کوئی لاکر تو دکھاؤ۔