اسلامی مملکت کی قدر و قیمت |
ہم نوٹ : |
|
پاکستان کی بنیاد میں علما کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ لیکن آج علما کو آہستہ آہستہ فراموش کیا جارہا ہے۔ میرے سامنے الٰہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سب سے بڑا اجلاس ہوا، میں نے خود اس میں شرکت کی، جس میں قرار داد پاس ہوئی کہ مسلمانوں کو ایک الگ خطہ بنانا چاہیے۔ اس کے بعد اعظم گڑھ میں مسلم لیگ کا سب سے بڑا اجلاس ہوا، جس میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تمام بڑے بڑے لیڈر اور علما شامل تھے، مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب،مولانا ظفر احمدعثمانی صاحب، حسرت موہانی صاحب،نواب زادہ لیاقت علی خان اور مسٹر جناح وغیرہ۔ قیامِ پاکستان کے لیے حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کی تڑپ اور خدمات میرے شیخ، حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے اجل خلیفہ حضرت مولانا شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ پورے اعظم گڑھ کی مسلم لیگ کے سیکریٹری تھے اور بہت زیادہ سرگرم تھے۔ حضرت کو ایک دھن اور فکر تھی کہ پاکستان بن جائے اور حضرت رات رات بھر سجدے میں روتے تھے کہ یا اللہ! کافروں کی غلامی سے آزاد پاکستان کی ایک اسلامی سلطنت بنا دے، اور دیکھیے، اعظم گڑھ کے اسی اجلاس کے لیے حضرت تہجد پڑھ کے پھولپور (اعظم گڑھ) سے گورکھپور حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کو لینے گئے، ان کی تقریر کرانے کے لیے۔ تہجد کے وقت کار روانہ ہوئی اور دوسرے دن عشاء کے وقت حضرت ان کو لے کر آئے اور عشاءپڑھائی اور فرمایا کہ میں نے تہجد کے وضو سے عشا ءکی نماز پڑھائی ہے اور سارا دن ایک پانی کا قطرہ بھی نہیں پیا، کیوں کہ استنجا لگ جاتا اور کسی جگہ رکنا پڑ جاتا، حضرت چاہتے تھے کہ بس جلد مولانا کو لے کر واپس پہنچیں۔ پاکستان بنانے میں ہمارے اکابرنے اس طرح سے قربانیاں پیش کی ہیں۔ پھر اس جلسے میں مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا ظفر احمد عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ جیسے بڑے بڑے عمائدین کی تقریریں ہوئیں، میں بھی اس میں موجود تھا، اتنا بڑا جلسہ تھا کہ شاید ہندوستان میں الٰہ آباد کے بعد اس کا دوسرا درجہ تھا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ اس زمانے میں دیندار لوگ کم ہیں، لہٰذا حکومت تو ان مسٹروں ہی کے ہاتھ میں رہے گی، لیکن اگر علما کی راہ نمائی میں رہے گی تو یہ صحیح سلامت ساحل تک پہنچ جائیں گے اور اگر انہوں نے علما کو نظر انداز کردیا تو ساحل تک نہیں پہنچ سکیں