اسلامی مملکت کی قدر و قیمت |
ہم نوٹ : |
|
میرے شیخ یہاں پاکستان آکر باغ باغ ہوگئے، خوب خوش رہتے تھے لیکن کبھی کبھی بے پردگی اور شریعت کے خلاف کام دیکھ کر افسوس بھی ظاہر کرتے تھے کہ ہائے! یہ پاکستان کیسا ’’نا پاکستان‘‘ نظر آرہا ہے، یہ پاکستان ’’نا پاکستان‘‘ کیوں ہورہا ہے مگر پاکستان کی جنگ کے لیے کیا جذبہ تھا کہ یہاں لاکھ غیر شرعی باتیں ہوں لیکن ہم آپس میں اپنے بھائیوں سے شکایت تو کرلیتے ہیں اور ان حکمرانوں کو بُرا بھلا بھی کہہ دیتے ہیں لیکن کافروں کے مقابلے میں، ہندوستان کے مقابلے میں ہم سینہ سپر ہوں گے۔ آخری عمر میں میرے شیخ پاؤں سے معذور ہوگئے تھے، کھڑے نہیں ہوسکتے تھے، اس کے باوجود یہ جذبہ تھا کہ ایک فوجی افسر میجرطور سے جو باشرع آدمی تھے، ان کی ایک مشت داڑھی تھی، نمازی تھے، فرمایا کہ میجرطور! جب جہاد شروع ہو، ہندوستان پاکستان کی جنگ شروع ہو تو اگرچہ میں کھڑا نہیں ہوسکتا، میرے گھٹنے بے کار ہوگئے ہیں لیکن مجھے چار پائی پر لاد کر لاہور کے بارڈر پر میری چار پائی بچھادینا اور جب توپ چلے تو توپ کا ہینڈل میرے ہاتھ میں دے دینا۔ حضرت کے ذہن میں پرانے زمانے کی توپوں کا تصور تھااس لیے فرمایا کہ ہم توپ چلاتے رہیں گے اور گولا کافروں پر پھینکتےرہیں گے، اور کوئی گولااُدھر سے آئے گا اور میں شہید ہوجاؤں گا اور یہ کہہ کر حضرت رونے لگے اورفرمایا کہ میں نے شہادت کےلیے دس سال لاٹھی اور تلوار سیکھی ہے، جیسے دس سال میں لوگ عالم ہوتے ہیں ایسے ہی ہم نے دس سال جہاد کے لیے اور شہید ہونے کےلیے تلوارسیکھی ہے، حضرت کا جذبۂ جہاد دیکھو۔ میرے شیخ نے فرمایا کہ نواب واجد علی کے زمانے میں جب جہاد ہوا تھا تو ایک عالم جو میرے وطن کے تھے اس میں شریک تھے اور ایک بڑے میاں بھی میرے وطن سے گئے تھے اور بہت اللہ والے تھے ان بڑے میاں نے بتایا کہ وہ مولانا کفن کندھے پر رکھ کر ہندوؤں کے مقابلے میں تلوار چلا رہے تھے اور ساتھ ساتھ ایک مصرع پڑھتے تھے ؎ سرِ میداں کفن بردوش دارم اے خدا! میں میدانِ جہاد میں آپ کی راہ میں جان دینے کے لیے کفن لے کے آیا ہوں اور مشاقانہ آیا ہوں تو آسمان سے آواز آتی تھی ؎