اسلامی مملکت کی قدر و قیمت |
ہم نوٹ : |
|
سمجھتے تھے کہ بس! اب سب بنگالی ہمارے غلام بن جائیں گے، لیکن آج بھی بنگلہ دیش میں ایمانی طاقت ہے اور ہندوؤں سے ان کو بغض و نفرت ہے۔ واقعی پاکستان کے بارے میں لوگوں کے پاس بہت کم معلومات ہیں۔ جب میں نے بعض لوگوں کو اسلامی سلطنت کی تعریف بتائی تو انہوں نے کہا کہ ہمارے دلوں میں پاکستان سے متعلق اتنے شک پیدا ہوگئے تھے کہ ہم سوچتے تھے کہ یہاں رہنے سے کیا فائدہ؟ پاکستان بننے سے کیا فائدہ ہوا؟ اور جب قانون ہی اسلامی نہیں ہے تو پھر بے کار ہم لوگ یہاں آئے۔ آج انہوں نے کہا کہ ہماری اصلاح ہوگئی کہ ہم بے کار نہیں آئے، اسلامی سلطنت میں ہماری حیات اور اسلامی سلطنت میں ہماری موت ہوگی، ان شاء اللہ تعالیٰ، ہم یہاں کی موت کو کفرستان کے مقابلے میں کروڑ ہا درجہ عزیز رکھتے ہیں۔ کیا شاہ عبدالغنی صاحب نہیں دیکھتے تھے کہ یہاں سب فاسق فاجر حکمران ہیں، پھر بھی کیوں فرمایا کہ میں ہندوستان کی طرف منہ کر کے پیشاب کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوں۔ میں نے حضرت سے یہ جملہ خود سنا، میرے اور حضرت کے درمیان کوئی راوی نہیں ہے۔ اور جب حضرت کراچی سے بمبئی گئے تو فرمایا کہاں کراچی کی رونق اور نور اور کہاں یہ بمبئی، دیکھو! ہر طرف سیاہ سیاہ کالا کالا نظر آتا ہے،جیسے بڑبھوجے کی دوکان، جہاں چنا بھونا جاتا ہے۔ایک صاحب نے کہا کہ پاکستان کی اس بے دینی سے تو اچھاہے کہ ہندو یہاں آکر قبضہ کرلیں ،یعنی ہم ہندوؤں کے غلام بن جائیں اور یہ بات کہنے والے صاحب دیندار اور عبادت گزار بنے ہوئے ہیں، اشراق و اوّابین پڑھتےہیں۔ کیا کہیں، بس! خدا نہ کرے ایسا دن کبھی آئے کہ ہم ہندوؤں کے غلام ہوجائیں۔ یہاں جیسے بھی ہیں، آزاد ہیں، ہماری ایک عزت ہے، ہم منبر پر وزیر اعظم کو کہہ تو سکتے ہیں کہ اسلامی قانون نافذکرو، خط تو لکھ سکتےہیں۔ آپ دیکھ لیجیے علماء علی الاعلان کہتے ہیں، روزانہ اخباروں میں بیان آرہا ہے کہ اسلام نافذ کرو۔ ذرا ہندوستان میں ایک دن بیان دے دیں کہ اسلامی قانون نافذ کرو، ہماری اکثریت ہے، ہم مسلمان اتنے زیادہ ہیں، ہمارے لیے الگ قانون بناؤ۔ کہہ کے دیکھ لیں، پھردیکھنا کہ انڈیا کی گورنمنٹ مولویوں کو کیسے گرفتار کرتی ہے۔تو جب میں نے اسلامی حکومت کی وضاحت کی تو سننے والوں نے کہا کہ آج ہمارا یہ شک دور ہوگیا، ورنہ ہم پاکستان کو اسلامی سلطنت میں نہیں سمجھتے تھے، ہم یہاں آنے پر پچھتارہے تھے لیکن اب