غم تقوی اور انعام ولایت |
ہم نوٹ : |
ہو۔اب دوسرالطیفہ سنو! بیت العلوم میں ایک عالم آئے، میرے شیخ نے ان کو اپنے گھر بلایا، تو انہوں نے کہا کہ بعض وقت آدمی سنتا کچھ ہے اور اس میں غلط فہمی ہوجاتی ہے۔ ایک چور، ہَسُّو نام کے آدمی کی دری چرا کر ایک مشاعرے میں چلا گیا، اُس وقت شاعر یہ مصرع پڑھ رہا تھا ؎ ہر سو کہ دویدیم تو ا س ظالم کو یہ سنائی دیا کہ ’’ ہَسُّو کی دری دے‘‘ شاعر نے کیا پڑھا ’’ہر سوکہ دویدیم‘‘ یعنی ہم جدھر جاتے ہیں اﷲ نظر آتا ہے، کیا غضب کا شعر سنایا لیکن چور جس کی بغل میں ہَسُّو کی دری تھی وہ ’’ہر سو‘‘ کو ہَسُّو سمجھا اور دویدیم کو سمجھا کہ دری دے، اس نے سوچا کہ یہ تو بے عزت کررہا ہے، پتا نہیں اس کو کس نے بتا دیا کہ یہ ہَسُّو کی دری چرا کرلایا ہے، چور نے اس سستے کے زمانے میں پانچ روپیہ اس کو ہدیہ کردیا کہ اب یہ شعر نہ پڑھے، میرا راز چھپا لے، مجھ کو ذلیل نہ کرے لیکن قوال نے سمجھا کہ اس کو بہت مزہ آیا ہے، مشاعرے کے قاعدے کی رُو سے ا س نے یہ سمجھاکہ یہ پانچ روپیہ ہدیہ مکرر ارشاد کے بدلے میں اس نے خوش ہوکر دیا ہے یعنی یہ دوبارہ یہی شعر سننا چاہتا ہے تو اس نے پھر کہا ’’ہر سو کہ دویدیم‘‘ اس نے پھر پانچ روپیہ دیا، اس کے بعد اس نے سو چا شاید اب خاموش ہوجائے، پانچ روپیہ کم تھا اب دس دیتا ہوں تاکہ اب مجھے ذلیل نہیں کرے، یہ شعر نہیں پڑھے لیکن اس نے سمجھا کہ شاید اس کو بہت زیادہ مزہ آیا ہے تو اس نے تیسری بار جب پڑھا تو چور نے حساب لگایا کہ ہَسُّو کی دری کی قیمت تو اس نے لے لی، اب تو یہ دری بے کار ہے تو اس نے پانچ روپے اور دینے کے بجائے دری اس کے منہ پر ماری اور کہا کم بخت لے ہَسُّو کی دری اب میں بھاگتاہوں یہاں سے، معلوم ہوتا ہے کہ چھوڑے گا نہیں۔ بس اب دعا کیجیے اﷲ تعالیٰ عمل کی توفیق دے ، آمین۔ وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ