غم تقوی اور انعام ولایت |
ہم نوٹ : |
|
عشقِ مجازی کی ابتدا نظر بازی اورانتہا بربادی ہے عشقِ ناداں کا تھا جو بھرم کھل گیا میرؔ اب منہ دکھانے کے قابل نہیں عشقِ ناداں کا بھرم کھل جاتا ہے آخر میں، پہلے تو یہی کہتا ہے کہ مجھے آپ سے پاک محبت ہے، میں تو اﷲ کے لیے آپ سے محبت کرتا ہوں، آخر کار یہ گلاب جامن اور رس ملائی ایک دن رنگ دِکھاتی ہے، عاشق پہلے تو خوب مرنڈا پلاتا ہے لیکن جب ڈنڈا دکھاتا ہے تب معشوق کہتا ہے توبہ توبہ ہمیں کیا خبر تھی کہ آپ اتنے نالائق اور خبیث الطبع ہیں، ہم تو سمجھتے تھے کہ آپ ہم سے اﷲ کے لیے محبت کرتے ہیں، عاشقِ فرسٹ فلور ہیں، اب معلوم ہوا کہ آپ عاشقِ گراؤنڈ فلور تھے۔ اسی لیے عشقِ مجازی کی انتہا کی بربادی کی وجہ سے اﷲ نےابتدا یعنی نظر کو حرام فرمایا ؎ عشقِ بتاں کی منزلیں ختم ہیں سب گناہ پر جس کی ہو انتہا غلط کیسے صحیح ہو ابتدا یہ میراہی شعر ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا احسان ہے جس نے نظر بازی کو حرام فرما دیا۔ نہ نظر خراب کرو، نہ اپنے مولیٰ سے دور رہو۔ میر تقی میرشاعر تھا اس نے کہا تھا ؎ میرؔ صاحب زمانہ نازک ہے دونوں ہاتھوں سے تھامیے دستار لیکن اب اِس زمانے میں میر لوگ ٹوپی پہنتے ہیں، پگڑی کا رواج ختم ہوگیا تو اب مجھے شعر بدلنا پڑا ؎ میرؔ صاحب زمانہ نازک ہے دونوں ہاتھوں سے تھامیے شلوار کیا کریں وزن تو لانا ہے، دستار کے وزن پر شلوارہے ۔ شرافتِ عبدیت کا تقاضا سارے عالم میں اخترؔ کی ہے یہ صدا وہ کمینہ ہے جو اُن کا سائل نہیں