غم تقوی اور انعام ولایت |
ہم نوٹ : |
|
کو بھی یعنی ظرف بھی اور مظروف بھی، ہم خونِ آرزو کے لیے تیار ہیں، لاکھ ہمارا خون آپ پر بہہ جائے تو بھی آپ کی قیمت ہم سے ادا نہیں ہوسکتی، اور خونِ آرزو کیا چیز ہے ہم اپنی گردن کا خون بھی آپ پر پیش کرنے کے لیے تیار ہیں، اگر اﷲ کے راستے میں ایک کانٹا چبھ جائے تو اگر اس کانٹے کو سارے عالم کے پھول سلامی اور گارڈ آف آنر دیں تو بھی اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ اس لیے جس کو اﷲ والا بننا ہو وہ اﷲ کے راستے کا غم اٹھانے کا حوصلہ کرے ؎ یا مکن با پیل باناں دوستی یا بنا کن خانہ بر اندازِ پیل یا تو ہاتھی بان سے دوستی نہ کرو یا اپنے گھر کا دروازہ بڑاکرلو جب وہ ہاتھی پر بیٹھ کر آئے گا تو چھوٹے دروازے سے گھر کے اندر کیسے آئے گا؟ لہٰذا اگر اﷲ سے دوستی کرنے کا ارادہ رکھتے ہو تواپنے دل کا دروازہ بڑا رکھو، حوصلہ بلند کرو۔ جن پر ہم لوگ جان دے رہے ہیں یہ جان دینے والے نہیں ہیں، جان تو خدا نے دی ہے اور تم اسے دوسروں کو دیتے ہو، مرنے والے حسینوں کے ڈسٹمپر پر جان دیتے ہو۔ سوچو تو سہی کہ کس سے جوڑتے ہو اور کس سے توڑتے ہو ؎ بقول دُشمن پیمانِ دوست بشکستی ببیں از کے بُریدی و با کے پیوستی دشمن کے کہنے سے اﷲ کے پیمان اور وعدے کو توڑتے ہو، دیکھو تو کس سے رشتہ جوڑتے ہو اور کس سے توڑتے ہو۔ اللہ والوں کی تاریخ زندہ رہتی ہے لیلائیں تو تمہیں لات و گھونسے اور جوتیاں لگائیں گی کیوں کہ حسینوں کو ہینڈل کرنے والوں کے سرپر جوتیاں پڑتی ہیں اور مولیٰ پر فداہونے والوں کے جوتے اُٹھائے جاتے ہیں اور نافرمانوں کی تو مرنے کے بعد بھی تاریخ لعنتی رہتی ہے کہ یہ ظالم تھا، بدمعاشیاں کیا کرتا تھا اور اﷲ والوں کی مرنے کے بعد بھی تعریفیں ہوتی ہیں۔ آہ! جلال الدین رومی رحمۃ اﷲ علیہ صاحبِ قونیہ، شاہ خوارزم کے نواسے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اولاد، فرماتے ہیں ؎ نیکواں رفتند و سنتہا بماند و ز لئیما ظلم و لعنتہا بماند