غم تقوی اور انعام ولایت |
ہم نوٹ : |
|
سائل سے مراد وہ سائل ہے جو اﷲ کو ڈھونڈے۔ جو اﷲ کو ڈھونڈتا ہے یہ اس کی شرافت ہے کہ آسمان وزمین اور شمس وقمر کے خالق کو تلاش کرتا ہے کہ جس کی ربوبیت اور پرورش میں سارا نظامِ عالم ہے، وہ اس خالقِ عالم اور خالقِ نظامِ عالم کو ڈھونڈتا ہے، اس کا ڈھونڈنا عین عقل اور شرافتِ طبع ہے۔ دو قسم کے لوگ میرے شیخ شاہ عبد الغنی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ ایک مسافر کئی روز سے جنگل میں بھوکا پیاسا میلے لباس میں بھٹک رہا تھا کہ اچانک اس کو ایک بنگلہ نظر آیا، اس نے بنگلے کے چوکیدار سے پوچھا کہ یہاں کھانا پانی مل جائے گا؟ اس نے کہا کہ پہلے ہم آپ کے میلے کپڑوں کی جگہ نیا کپڑا پہنائیں گے، پھر آپ سموسے، پاپڑ اور کڑھی کھائیے، وہ مسافر گجراتی تھا، اس کے تو مزے آگئے، گجراتیوں کو سموسہ بہت پسند ہے یہاں تک کہ افریقہ کے تین سو ساٹھ کلو میٹر کے جنگل میں ہرن دیکھ کر ایک گجراتی نے میرے کان میں کہا کہ یہ شیروں کا سموسہ ہے، میں نے کہا کہ واہ رے شاباش! جنگل میں بھی سموسہ یاد آگیا۔ تو مسافر تھکا ماندہ تھا نہا دھو کر کھانا کھا کر سو گیا، جاگنے کے بعد اس نے پوچھا کہ بھئی یہ بنگلہ کس کا ہے اور مسافروں کی راحت کا یہ انتظام کس نے کیا ہے؟ تو اس نے کہا کہ ایک سیٹھ صاحب ہیں جنہوں نے یہاں مسافر خانہ بنا دیا ہے تو اس نے کہا کہ اﷲ ایسے سیٹھ کو جزائے خیر دے، آپ مجھے ایڈریس دیجیے، میں ملاقات کر کے ان کا شکریہ ادا کروں گا۔ میرے شیخ نے فرمایا کہ یہ شریف مسافر ہے۔ اب دوسرا مسافر آیا، نہایا دھویا، مفت کے کپڑے بدلے، مفت کا سموسہ نگلا اور کھا پی کے سوکے چلا گیا اور پاسبان سے پوچھا بھی نہیں کہ یہ بنگلہ کس کا ہے یا ہمارے لیے ان نعمتوں کا انتظام کس نے کیا ہے؟ تو میرے شیخ فرماتے تھے کہ پہلا مسافر شریف ہے، دوسرامسافر کمینہ ہے، طبعی طور پر بے غیرت ہے، بےحس ہے، جانور ہے، انسان نہیں ہے۔ پھر فرمایا کہ اسی طرح دنیا میں بھی دونوں قسم کے لوگ ہیں، شریف بھی ہیں اور کمینے بھی ہیں، کمینے وہ ہیں جو کھاتے پیتے ہیں مگر کبھی نہیں پوچھتے کہ جس سورج نے غلہ پکایا ہے یہ کس نے پیدا کیا ہے، اس سورج کا خالق کون ہے؟جس سمندر سے بادل اُٹھے اس سمندر کا خالق کون ہے؟ اور یہ بادل جنہوں نے سمندر کے کڑوے پانی سے میٹھا پانی برسایا تو ان میں کون سا فلٹر پلانٹ ہے؟