غم تقوی اور انعام ولایت |
ہم نوٹ : |
|
اہلِ دل کون ہیں؟ صحبتِ اہل دل جس نے پائی نہ ہو اُس کا غم غم نہیں اُس کا دل دل نہیں اہلِ دل سے مراد اہل اﷲ ہیں اور اﷲ والوں کو اہلِ دل کیوں کہتے ہیں؟اس کا جواب میں نے اپنے فارسی شعر میں دیا ہے جس کو پڑھ کر مولانا سید محمد یوسف صاحب بنوری رحمۃ اﷲ علیہ وجد میں آگئے تھے۔ وہ شعر ہے ؎ اہلِ دل آنکس کہ حق را دل دہد دل دہد او را کہ دل را می دہد اہلِ دل وہ ہے جو اپنے دل کو اپنے خالق پر، اﷲ پر فدا کردے، اس کو دل دے جس نے ماں کے پیٹ میں دل بنایا ہے۔ دیکھو! مکھیوں کے پاس پر ہے یا نہیں؟ لیکن مکھی کو پروانہ نہیں کہتے وہ پیشاب اور پاخانہ کی نالیاں چوستی ہے تو جس کا دل پیشاب پاخانے کے مقام پر مرتا ہے وہ دل اس قابل نہیں ہے کہ اسے دل کہا جائے، دل وہی ہے جو اﷲ پر فدا ہوتا ہے، مکھی کے پر ہیں مگر دنیائے لغت نے اسے پروانہ تسلیم نہیں کیا لہٰذا اپنی قیمت کو گراؤنڈ فلور کے چکروں میں ضایع مت کرو۔ لذاتِ دوجہاں کے لیے خالقِ دوجہاں کافی ہے اﷲ تعالیٰ کا اعلان ہے: اَلَیۡسَ اللہُ بِکَافٍ عَبۡدَہٗ 7؎کیا تمہارے دل کی بہاروں کی لطف اندوزی، سہارے، سکون اور لذتِ دوجہاں کے لیے تمہاراخالقِ دوجہاں کافی نہیں ہے؟ جو لیلاؤں کو نمک دے سکتا ہے وہ تمہارے قلب کو حاصلِ نمکیاتِ لیلائے کائنات نہیں دے سکتا؟ اَلَیۡسَ اللہُ بِکَافٍ نکرہ تحت النفی ہے قاعدہ ہے اِنَّ النَّکِرَۃَ اِذَا وَقَعَتْ تَحْتَ النَّفْیِ تُفِیْدُ الْعُمُوْمَ آہ! قرآنِ پاک پر ایمان لانے والو! _____________________________________________ 7؎الزمر: 36