غم تقوی اور انعام ولایت |
ہم نوٹ : |
|
شرط لگا دی، اس کا نام ہے دعوت بشرطِ شے اور اگر آپ کہیں کہ مجھے گائے یا بیل کا بڑا گوشت نقصان کرتاہے، لہٰذا بڑا گوشت نہ کھلانا تو اس کا نام ہے دعوت بشرطِ لا شے بیل کا گوشت لا شے ہوگیا۔ پہلی شرط میں حصول تھا کہ کباب لاؤ، یہاں بشرطِ لا شے ہے کہ بیل کا گوشت نہ ہو، بکرا کھلانا۔ دومسئلے حل ہوگئے، بشرطِ شے کباب سے حل ہوا اور بشرطِ لاشے بڑے گوشت سے حل ہوا۔ اب اگر آپ نے کہا کہ صاحب کوئی قید نہیں، آپ کی مرضی پر ہے چاہے کباب کھلاؤ، چاہے بیل کا گوشت کھلاؤ، جو چاہو کھلاؤ، جو چاہو نہ کھلاؤ، اس کا نام ہے دعوت لا بشرطِ شے۔ جب میں نے اس کو بیان کیا تو سب علماء اور میرے مشایخ بھی ہنسے اور شاباشی دی۔ تو دیکھا آپ نے دعوت کی کرامت کہ یہ فلسفے کے مسائل حل کردیتی ہے۔ حکیم الامت نے فرمایا کہ دو نعمتوں کی طرف لوگوں کی توجہ کم جاتی ہے: (۱)دعوت کا کھانا اور (۲) جماعت کی نماز۔ جس کو دعوت مل جائے تو یہ بہت بڑی نعمت ہے، اﷲ کا شکر اداکرو اور جماعت سے نماز مل جائے تو بھی اﷲ کا شکر ادا کرو جماعت میں ساری محنت امام کررہا ہے، جماعت کی نماز میں محنت امام کی اور کام آپ کابن گیا اور ثواب بھی ستائیس گنا زیادہ۔اور میں اسی سے مسئلہ بتاتا ہوں کہ خالی تنہائیوں کی عبادت اﷲ کو پسند تو ہے مگر اپنے عاشقوں کی ملاقات کو اﷲ نے ترجیح دی اور جماعت کی نماز کو واجب قرار دیا کہ گھر میں اکیلے نماز مت پڑھو، میرے عاشقوں سے بھی ملو، جماعت کا وجوب ملاقاتِ عاشقاں کا ایک بڑا ذریعہ ہے، ملاقاتِ دوستاں کا ذریعہ ہے اور پھر عاشقوں کی اسی تعداد پر قناعت مت کرو، جمعہ کے دن اور زیادہ عاشقوں سے ملو پھر عید بقر عید کو اور زیادہ عاشقوں سے ملو اور حج عمرہ نصیب ہو تو بین الاقوامی عاشقوں سے ملاقات اور زیارت کرو۔ میں بھی سارے عالم کے سفر کے لیے اﷲ سے گروہِ عاشقاں مانگتا ہوں۔ مولانا منصور صاحب کا مصرع ہے ؏ کبھی چلو میرے مرشد کے ہم سفر ہو کر حضرت حکیم الامت کا ارشاد ہے کہ اپنے مربیّ کے ساتھ سفر کرو، جب وہ بھی بے وطن ہو، اپنے بال بچوں سے دور ہوا ور مرید بھی اپنے بال بچوں سے دور ہو پھر دیکھو کہ اﷲ کتنی تیز والی پلاتا ہے ؎ مانا کہ بہت کیف ہے حبُّ الوطنی میں ہوجاتی ہے مے تیز غریب الوطنی میں