غم تقوی اور انعام ولایت |
ہم نوٹ : |
|
نمبر ایک: سنانے والا اَمرد لڑکا اور عورت نہ ہو، اَمرد یعنی جس کی داڑھی مونچھ نہ ہو، لیکن اب شرطِ اوّل میں اس قید کا اضافہ کیا جارہا ہے کہ اگر داڑھی مونچھ ہو مگر ہلکی ہو تب بھی اس سے اشعار نہ سننا چاہیے۔ نمبر دو: ڈھول، سارنگی، باجہ غرض آلۂ ساز نہ ہو ورنہ طبیعت ناساز ہوجائے گی۔ نمبرتین: مضمون خلافِ شرع نہ ہو۔ نمبر چار: سننے والے اہلِ ہویٰ نہ ہوں، نفس پرست نہ ہوں، اور اگر اشعار حکمت و موعظت پر مبنی ہوں تو سامعین کے اہلِ ہویٰ نہ ہونے کی شرط نہیں ہے ایسے اشعار سے اہلِ ہویٰ اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار بن جاتے ہیں اور ان کا عشقِ لیلیٰ عشقِ مولیٰ سے تبدیل ہوجاتا ہے۔ مولانا جو اشعار سنارہے ہیں تو اَمرد اور زن میں ان کا شمار نہیں ہوتا، مضمون خلافِ شرع نہیں ہے، آلۂ لہو و لعب یعنی سارنگی، ڈھولک، طبلہ وغیرہ نہیں ہے اور سننے والے الحمدِﷲ سب صالحین ہیں لہٰذا آج جائز قوالی سن لو، نہ اس میں ساز ہے، نہ باجا اور پڑھنے والا مرد ہے، پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی، مزہ لوٹ لو،یہ راتیں پھر کہاں ملیں گی۔ ان شاء اﷲ اگلے سال بخیر زندگی اﷲ رکھے تو پھر حاضری ہوگی۔ تو چار شرطیں بتا دیں، اب مجلس پر کسی قسم کا اعتراض کرنے والا خود بے وقوف ہوگا بلکہ امیر الحمقاء ہوگا، میں پہلے مَالَہٗ وَمَاعَلَیْہِ ٹھیک کردیتا ہوں۔ ہمارا ایک دوست ہے، میرا مرید بھی ہے، غضب کا شاعر ہے، تائب اس کا نام ہے۔ اس کا ایک شعر ہے ؎ ہماری آہ وفغاں یوں ہی بے سبب تو نہیں ہمارے زخم سیاق و سباق رکھتے ہیں ظالم نے مولویانہ شعر کہا ہے اساتذہ سیاق و سباق بہت بتاتے ہیں۔ جو جان اﷲ پر فدا نہ ہو وہ بڑی ہی محروم جان ہے اورجان اﷲ پر فدا کرنے کی پہلی شرط یہی ہے کہ مرنے والوں سے بچو زندہ حقیقی اُس قلب میں اپنی تجلیات کے ساتھ متجلی نہیں ہوتا جس قلب میں مردے لیٹے ہوئے ہوں۔ ( پھر مولانا منصور الحق صاحب نے حضرت والا دامت برکاتہم کے اشعار سنائے جن میں سے چند کی حضرت والا نے تشریح بھی فرمائی۔)