اہل محبت کی شان |
ہم نوٹ : |
|
اﷲ والے کبھی کبھی اپنے راز کو فاش کردیتے ہیں،یعنی کبھی کبھی اپنا راز آؤٹ کردیتے ہیں۔ اسی لیے خواجہ صاحب فرماتے ہیں ؎ درد یہ اور کو ملتا تو وہ مر ہی جاتا کر کے نالہ بھی مجھے نازِ شکیبائی ہے یعنی مجھے آہ و نالہ کر کے بھی اپنے صبر پر ناز ہے۔ اور فرمایا کہ ؎ پتا چلتا کہ غم میں زندگی کیوں کر گزرتی ہے تیرے قالب میں کچھ دن کو مری جانِ حزیں ہوتی اہل اﷲ سے بے تعلقی کا انجام اوراہل اﷲ سے وابستگی کا انعام جو مسٹر بالکل آزاد ہے اس کو کیا پتا کہ اﷲ کے راستے میں کیا غم اٹھانا پڑتا ہے ۔ وہ تو مثلِ سانڈ کے جس کھیت میں دل چاہا منہ مار لیا اور ڈنڈے کھا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ آزادی میں بڑا مزہ ہے، ہم کسی کے ساتھ نہیں جُڑیں گے، شیخ وغیرہ کے ساتھ جُڑنے سے وہ گھبراتا ہے، کہتا ہے کہ دیکھو جو بیل کھونٹے پر بندھتا ہے وہ ہر وقت بندھا رہتا ہے او رسانڈ کیسے مزے کرتا ہے لیکن پتا نہیں کہ سانڈ جب مرتا ہے تو اس کا کوئی علاج نہیں کراتا، اسے چیل کوّے کھاتے ہیں کیوں کہ اس کا کوئی مالک نہیں ہے، اس کا کسی سے تعلق نہیں ہے اور وہ ہر کھیت میں کسان کا ڈنڈا کھاتا ہے، اس کی کھال دیکھ لو سلامت نہیں ہوتی، دنیا میں ایسا کوئی سانڈ نہیں جس کی کھال پر ہزاروں لاٹھیاں نہ پڑی ہوں، لیکن جو بیل کسی کے کھونٹے سے بندھا ہے تو اس کا مالک اس کو چارہ بھی دیتا ہے اور صبح شام کھونٹا بھی بدلتا ہے، اسے رحم آتا ہے کہ میرا جانور دن بھر یہاں بیٹھے بیٹھے تھک گیا ہوگا اب اس کو دوسری جگہ باندھ دیا، اور جب بیمار ہوجاتا ہے تو دوا بھی لاتا ہے، مویشی ہاسپٹل لے جاتا ہے اور اگر مر جاتا ہے تو روتا بھی ہے جبکہ سانڈ کے مرنے پہ کوئی نہیں روتا۔ جو لوگ اﷲ والوں سے وابستہ ہیں جب ان کا انتقال ہوتا ہے تو کتنے اﷲ والے روتے ہیں اور جس اللہ والے کی مجلس میں جایا کرتا تھا وہ بھی روتا ہے کہ یااﷲ! میرے پاس آتا رہتا تھا