اہل محبت کی شان |
ہم نوٹ : |
|
مرتد ہوگئے، ارتداد میں مبتلا ہوگئے۔اس حقیقت کو علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں فَاِنَّ مَوَالَا ۃَ الْیَہُوْدِ وَالنَّصَارٰی مُسْتَدْعِیَّۃٌ لِلْاِرْتِدَادِ عَنِ الدِّیْنِ 4؎ یعنی یہودیوں اور عیسائیوں سے دل سے محبت اور میل جول رکھنے کا ان منافقین پر عذاب یہ ہوا کہ ان کو دین سے پھیر دیا گیا اور اس کی مثال بہت واضح ہے۔ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب فرماتے ہیں کہ ایک شخص کہتا ہے کہ مجھے پیاس لگی ہے پیاس لگی ہے، گرمی لگ رہی ہے، پنکھا کھول دو، مجھے ٹھنڈا مرنڈا پلادو لیکن یہ بھی کہتا ہے کہ میرے چاروں طرف کوئلے کی انگیٹھی جلا دو تو آپ کیا کہیں گے؟ کہ یہ پاگل ہے تو ایسے ہی اﷲ تعالیٰ کے نام سے ٹھنڈک لینے والا جب گناہوں کی گرمی بھی درآمد کرے گا تو پھر اس کو سکون کیسے ملے گا؟ حواسِ خمسہ اور تقویٰ کا شیشہ مجھے یاد ہے کہ جدّہ سے میرے دوست انجینئر انوار الحق میرے شیخ مولانا شاہ ابرار الحق صاحب کو اور مجھ کو لے کر حرم شریف جارہے تھے، راستے میں گاڑی کا ایئر کنڈیشن چالو کیا مگر گرمی برابر باقی تھی، ٹھنڈک نہیں آرہی تھی تو حضرت نے فرمایا کہ کیا بات ہے کہ ایئرکنڈیشن کافائدہ محسوس نہیں ہورہا ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شیشہ کھلا رہ گیا ہے جب اس شیشے کو بند کردیا گیا تو تمام کار ٹھنڈی ہوگئی، ایئر کنڈیشن کا فائدہ شروع ہوگیا،ایسے ہی جب ہم اپنے دل میں اللہ کے ذکر کا ایئر کنڈیشن چالو کرتے ہیں، رات کو تہجد پڑھتے ہیں، ضربیں لگاتے ہیں، اﷲاﷲ کرتے ہیں تو ذکر کی ٹھنڈک دل میں آتی ہے لیکن جب سڑکوں پر چلتے ہیں تو اپنی آنکھوں کا شیشہ کھول دیتے ہیں جس سے سارے انوار ضایع ہوجاتے ہیں اور قلب کو کامل ٹھنڈک و سکون نہیں ملتا۔ کار میں چار شیشے ہوتے ہیں مگر جسم میں پانچ شیشے ہیں، جسے حواسِّ خمسہ کہتے ہیں یعنی لامسہ، سامعہ، شامہ، ذائقہ، باصرہ ، چھونے کی، سننے کی، سونگھنے کی، چکھنے کی اور دیکھنے کی حس یہ پانچ حواسِّ خمسہ ہیں، اب اگر آنکھ سے دیکھنے کی طاقت کو غلط استعمال کرلیا یعنی بدنظری کرلی، _____________________________________________ 4؎روح المعانی:160/6،المآئدۃ(54)،داراحیاءالتراث،بیروت،ذکرہ بلفظ ان موالاتہم مستدعیۃ للارتداد عن الدین