اہل محبت کی شان |
ہم نوٹ : |
|
کیوں صاحب! بری بات یعنی گناہ تو نہ چھوڑا اور اپنے اﷲ کو چھوڑ دیا،یہ بندہ کتنا نالائق ہے، بھئی اگر چھوڑنا ہی تھا تو گناہ چھوڑتے لیکن جو چھوڑنے کی چیز تھی اس کو تو نہ چھوڑا اور اپنے اﷲ کو چھوڑ دیا۔ خدا کو چھوڑ کر کہاں جاؤگے؟ کیا کوئی اور بھی خدا ہے؟ ایک بزرگ کی اﷲ تعالیٰ سے محبت کا واقعہ ان بزرگ کے واقعہ کو یاد کرلو جن کی تہجد قبول نہیں ہوئی تھی، آسمان سے آواز آئی کہ تمہاری تہجد قبول نہیں ہے لیکن پھر بھی پڑھ رہے ہیں، خادم نے کہا کہ حضرت میں ایک آواز روزانہ سنتا ہوں کہ تمہاری تہجد قبول نہیں پھر آپ راتوں کو کیوں اٹھتے ہیں؟ آرام سے ٹانگ پھیلا کر سوئیں۔ وہ بزرگ یہ بات سن کر رونے لگے، فرمایا کہ بیٹا! بات یہ ہے کہ میرا ایک ہی اﷲ ہے، ہم اس کی چوکھٹ پر پڑے ہوئے ہیں، قبول کرنا ان کا کام ہے، ہمارے پاس جو سر ہے وہ ہم ان کی چوکھٹ پر رکھتے ہیں، اگر دو خدا ہوتے تو میں دوسرے کے پاس چلا جاتا اور اس خدا کو چھوڑ دیتا جو میری نماز قبول نہیں کررہا ہے لیکن میرا ایک ہی تو اﷲ ہے، وہ قبول کرے یا نہ کرے ہمیں تو انہی کی چوکھٹ پر پڑے رہنا ہے۔ بس دوسرے ہی دن آواز آگئی ؎ قبول است گرچہ ہنر نیستت کہ جز ما پناہِ دگر نیستت اے شخص! تیری ساری تہجد قبول ہے، اگرچہ تو نالائق ہے مگر جانتا ہے کہ میرے سوا تیرا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ ہمیں کوئی بتائے کہ اﷲ کے سوا کوئی ٹھکانہ ہے؟ ؎ میں ان کے سوا کس پہ فدا ہوں یہ بتادے لا مجھ کو دِکھا ان کی طرح کوئی اگر ہے حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ مجاہدے کے غم کو لوگ معمولی سمجھتے ہیں حالاں کہ دوستو! اﷲ والوں کو جو ہروقت جائز ناجائز کی فکر ہے، پریشانی ہے اس پر فرماتے ہیں ؎ پتا چلتا کہ غم میں زندگی کیوں کر گزرتی ہے تیرے قالب میں کچھ دن کو مری جانِ حزیں ہوتی