اہل محبت کی شان |
ہم نوٹ : |
|
کہ معلوم نہیں میری نماز قبول ہے یا نہیں؟ فرمایا کہ تم کسی بادشاہ کے دربار میں جاؤ اور اسے تمہارا آنا پسند نہ ہو تووہ بادشاہ تم کو دوبارہ اپنے دربار میں گھسنے دے گا؟ لہٰذا جب اللہ فجر کے بعد ظہر پڑھوادے تو سمجھ لو فجر قبول ہو گئی اور عصر کے بعد مغرب پڑھوا دے تو سمجھ لو کہ عصر قبول ہوگئی ورنہ اﷲ اپنے گھر میں داخل بھی نہ ہونے دیتا۔ سبحان اﷲ! یہ حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی رحمۃ اﷲ علیہ کا جواب ہے ۔ مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ سنقر ایک غلام تھا اور نمازی تھا اور اس کا مالک بے نمازی تھا، مالک نے سبزی خرید کر اس کے سر پر رکھی، وہ اذان سن کر مسجد چلا گیا، اب مالک صاحب مسجد کے باہر انتظار کررہے ہیں، سب نمازی آگئے مگر اس نے دیر لگا دی، اس کو مناجات میں، دعا میں مزہ آگیا وہ بھول ہی گیا کہ میں کیا ہوں اور کہاں ہوں ؎ اب نہ کہیں نگاہ ہے اب نہ کوئی نگاہ میں محو کھڑا ہوا ہوں میں حسن کی بارگاہ میں اب مالک صاحب کہتے ہیں ارے سنقر! سارے نمازی تو آگئے تو کیوں نہیں آرہا ہے؟ اس نے کہا مجھ کو آنے نہیں دے رہے ہیں۔ مالک نے کہا کہ تنخواہ تو میں دیتا ہوں ،تجھ کو کون باہر نہیں آنے دے رہا ہے۔ کہا کہ جو تجھ کو اندر نہیں آنے دے رہا ہے وہ مجھ کو باہر نہیں آنے دے رہا ہے۔ دوستو! اس روئے زمین پر کوّا گُو کھاتا ہے اور ہنس موتی چگتا ہے، اسی روئے زمین پرکچھ لوگ گندے گندے کام کررہے ہیں اور اسی روئے زمین پر کچھ لوگ مناجات اور اﷲ کی یاد میں مشغول ہیں، یہ شاہراہ ہے، اس پر بادشاہ بھی چل رہا ہے، کتا بھی چل رہا ہے، چمار بھی چل رہا ہے، وزیر اعظم بھی چل رہا ہے، یہ دنیا عجیب جگہ ہے، جیسے ریل میں مجرم بھی جارہا ہے اور بادشاہ بھی جارہا ہے۔ آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ کبھی ریل کے ڈبے میں ہتھکڑی لگا ہوا مجرم بھی جارہا ہے جبکہ اسی ریل میں شریف لوگ بھی ہیں۔ مشاہدہ بقدرِ مجاہدہ اس روئے زمین پر جس کو اﷲ اپنا نام لینے کی اور گناہ سے بچنے کے مجاہدے کی توفیق دے دے تو سمجھ لو کہ اﷲ اس کو اپنا بنا رہا ہے۔آہ! خواجہ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ