اہل محبت کی شان |
ہم نوٹ : |
|
جس کا مجاہدہ جتنا زیادہ ہوتا ہے، جس کو اﷲ کے راستے میں شدید مجاہدہ ہوتا ہے، جس کو ہر وقت جائز و ناجائز کی فکر رہتی ہے، اس کا نفس ہروقت اس کو پریشان رکھتا ہے اس کی محبت کا یہ مقام ہوتا ہے ؎ ہے شوق و ضبطِ شوق میں دن رات کشمکش دل مجھ کو میں ہوں دل کو پریشاں کیے ہوئے لیکن علمائے دین اور بزرگانِ دین قرآن و حدیث کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ جو جتنا غم اﷲ کے راستے میں اٹھائے گا اتنا ہی زیادہ اﷲ اس کو اپنا نور اور اپنی محبت عطا کرے گا، کسی کو گناہ چھوڑنے میں جتنا غم ہوگا بقدرِ غم ان شاء اﷲ اس کو اﷲ کے یہاں سے انعام ملے گا۔ اس لیے اللہ کے راستے کے غم کو خوشی خوشی سر پر رکھ لو۔ مجھے حیدر آباد دکن کا اپنا ایک شعر یا د آیا ؎ ہائے جس دل نے پیا خونِ تمنا برسوں اس کی خوشبو سے یہ کافر بھی مسلماں ہوں گے اور اس کی خوشبو سے مسلماں بھی مسلماں ہوں گے یعنی ناقص مسلمان کامل مسلمان ہوجاتا ہے۔ مجھے آج سے بیس سال پہلے رمضان شریف کا اپنا ایک شعر یاد آیا ؎ وہ دل جو تیری خاطر فریاد کررہا ہے اُجڑے ہوئے دلوں کو آباد کررہا ہے جو دل خدا کی یاد میں غم زدہ ہے اور رو رہا ہے تو جو لوگ اس کے پاس رہتے ہیں وہ اپنے دل میں آبادی اور اﷲ کی محبت کے انوار محسوس کرتے ہیں، دل سے دل بنتے ہیں، دل دل بناتا ہے۔ خواجہ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر مجھ کو کسی حسین کی طرف کشش ہوتی ہے تو میں اﷲ کے خوف سے نظر نیچی کرلیتا ہوں۔ اور جب کسی حسین کا سامنا ہوا اور خواجہ صاحب نے نظر نیچی کی تو آسمان کی طرف دیکھ کراﷲ تعالیٰ سے خطاب کرکے فرماتے ہیں ؎ بہت گو ولولے دل کے ہمیں مجبور کرتے ہیں تری خاطر گلے کا گھونٹنا منظور کرتے ہیں اس کو عشق کہتے ہیں۔ خواجہ صاحب رحمۃاﷲ علیہ کا کیا کمال تھا! اپنا باطنی مجاہدہ بیان کرگئے،