اہل محبت کی شان |
ہم نوٹ : |
|
کے عاشقوں کی صحبت کو لازم کر لے کیوں کہ جس کے دل میں اﷲ کی محبت آگئی، جو اہلِ محبت ہوگیا تو اﷲ نے مرتد قوم کے مقابلے میں اہلِ محبت کو بیان فرمایا ہے اور مرتدین کے مقابلے میں اہلِ محبت کو لانا دلیل ہے کہ اہلِ محبت کبھی مرتد نہیں ہوسکتے۔ خطا پر اہلِ محبت کی ندامت اور گریہ و زاری کی شان اس کا یہ مطلب نہیں کہ اہلِ محبت سے کبھی کوئی گناہ ہو ہی نہیں سکتا، کبھی غلطی ہوجانا اور بات ہے مگر پھر وہ رو رو کے اﷲ کو منا بھی لیتے ہیں، ان کے آنسوؤں کو دوسری آنکھ کے آنسو نہیں پاسکتے، ان کے گریہ او ران کی توبہ کو عوام کی توبہ نہیں پاسکتی۔ مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎ در جگر اُفتادہ ہستم صد شرر در مناجاتم ببیں خونِ جگر اے خدا! میری مناجات میں میرے جگر کا خون دیکھ لیجیے۔ سبحان اﷲ! ؎ در مناجاتم ببیں خونِ جگر میری مناجات اور استغفار و توبہ میں میرے جگر کا خون شامل ہے۔ اس پر مجھے اپنا ایک اردو شعر یاد آگیا، فرض کیجیے کہ ایک بندہ سجدے میں اپنے گناہوں کو یاد کر کے توبہ کر رہا ہے، زار و قطار رو رہا ہے اب اس زمینِ سجدہ کا عالم کیا ہوگا ؎ زمینِ سجدہ پہ ان کی نگاہ کا عالم برس گیا جو برسنا تھا مرا خونِ جگر اور مولانا رومی فرماتے ہیں ؎ اے دریغا اشکِ من دریا بُدے تا نثارِ دلبرے زیبا شُدے اے کاش! کہ میرے آنسو دریا ہوجاتے تو میں اپنے اﷲ کے درپر، اس کی چوکھٹ پر دریا کے دریا آنسو بہا کر اپنے مالک کو خوش کرلیتا اور ان آنسوؤں کو محبوب حقیقی تعالیٰ شانہٗ پر فدا کر