اہل محبت کی شان |
ہم نوٹ : |
|
جعلی درویشوں اور اصلی اہلِ محبت کی پہچان ایک تمثیل سے اب آپ کہیں گے کہ یہ کیسے معلوم ہو کہ کون اہلِ محبت ہے، آپ اس کے پاس کچھ دن رہو پھر دیکھو کہ یہ کتنی دیر دنیا کی بات کرتا ہے اور کتنی دیر اﷲ کی بات کرتا ہے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ کبھی کبھی سانپ مچھلی پن دکھا دیتا ہے، جب سانپ دیکھتا ہے کہ مچھلیوں کی بڑی عزت ہورہی ہے اور مجھے بہت جوتے مارے جاتے ہیں تو وہ بھی مچھلیوں کی نقل کرتا ہے لیکن مولانا فرماتے ہیں کہ کچھ دن کے بعد جب تماشائی چلے گئے تو چوں کہ وہ پانی کاجانور تو ہے نہیں، زیادہ دیر پانی میں رہنے سے اس کو ملیریا چڑھ جاتا ہے، بخار آجاتا ہے پھر وہ جلدی سے خشک بل میں گھس جاتا ہے۔ تو فرمایا کہ جو اہل اﷲ کی نقل کرنے والے ہیں وہ موسمی ہوتے ہیں، تھوڑی دیر نقل دکھائیں گے اس کے بعد پھر چھپ کر اخبار اور ڈائجسٹ پڑھیں گے اور ٹی وی اور ویڈیو دیکھیں گے۔ لہٰذا مولانا رومی فرماتے ہیں ؎ دائم اندر آب کارِ ماہی است مار را با او کجا ہمراہی است ہر وقت پانی میں رہنا مچھلیوں کا کام ہے، سانپ اگر لاکھ مچھلی پن دکھا دے لیکن مچھلی کی طرح ہر وقت پانی میں نہیں رہ سکتا۔ تو پرسنٹیج نکالو اور دیکھو کہ ان کے منہ سے کتنا دین نکلتا ہے اور کتنی دنیا نکلتی ہے، بس پتا چل جائے گا، ہفتہ دس دن آزماؤ اور اگر وہاں دل نہ لگے اور معلوم ہو کہ یہ شخص ولی اﷲ نہیں تو کسی دوسرے اللہ والے کو تلاش کرو۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ جب مجنوں کی لیلیٰ مرگئی تو بستی والوں نے اسے قبرستان کا پتا نہیں دیا اور لیلیٰ کے ابا نے بھی منع کردیا کہ بھئی اسے مت بتانا ورنہ قبر کھود کر میری بیٹی کو نکال لے گا، پاگل تو پاگل ہے لہٰذا اسے لیلیٰ کی موت سے بے خبر رکھا گیا، پانچ چھ مہینے کے بعد چند شریر لڑکوں نے اس کے کان میں کہہ دیا کہ ارے تیری لیلیٰ تو قبر میں گئی، اس نے کہا کہ اچھا! بس جناب وہ قبرستان گیا اور ہر قبر کی مٹی کو سونگھا، جب لیلیٰ کی قبر پر گیا تو مٹی سونگھ کر بتادیا کہ میری لیلیٰ یہاں ہے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ مجنوں تو دنیا کا پاگل تھا پھر بھی اس نے قبر سونگھ کر بتا دیا کہ میری لیلیٰ یہاں ہے ؎