اہل محبت کی شان |
ہم نوٹ : |
|
مولانا رومی کی فنائیت مولانا رومی زکوٰۃ اور صدقہ فطر کھانے والے نہیں تھے، سلطانِ وقت شاہ خوارزم کے سگے نواسے تھے۔ دوستو! قیمتی لباس میں رہنے والے جلال الدین رومی نے اﷲ کی محبت میں شمس الدین تبریزی کو جب شیخ بنایا تو ان کا بستر، پیالہ، چکی سر پر رکھ کر ان کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگے لیکن پھر اﷲ نے ان کو اس مٹانے اور تواضع پرکیا دیا؟ اﷲ نے ان کی زبان سے ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار کہلائے،کیوں کہ شمس الدین تبریزی نے خدا سے دعا کی تھی کہ اے خدا! مجھے کوئی ایسا بندہ عطا فرما کہ تیری محبت کی جو آگ میرے سینے میں ہے میں اس کو منتقل کردوں کیوں کہ مجھے اپنی موت قریب نظر آتی ہے، ایسا نہ ہو کہ تیری محبت کی یہ قیمتی امانت قبر میں دفن ہوجائے۔ تو آسمان سے آواز آئی کہ اے شمس الدین! قونیہ جا، وہاں میرا ایک بندہ جلال الدین ہے جو میری پیاس اور طلب رکھتا ہے، اس کے سینے میں میری محبت کی آگ کو منتقل کردے۔ اور وہ آگ ایسی منتقل ہوئی کہ اس سے ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار پیدا ہوئے جن میں محبت کی آگ بھری ہوئی ہے ۔ آج ساری دنیا کے بڑے بڑے علماء مولانا رومی کے اشعار کو اپنی مجالس، اپنے مواعظ، اپنی تصانیف کی زینت بناتے ہیں۔ اکابر علماء کی اہل اﷲ سے استفادہ کی مثالیں مولانا رومی نے شرم نہیں کی کہ میں بخاری پڑھاتا ہوں، میں معقول اور منقول کا جامع اتنا بڑا عالم ہوں میں کیوں کسی اﷲ والے کی جوتیاں اُٹھاؤں؟ مولانا قاسم نانوتوی کو شرم نہیں آئی، مولانا رشید احمد گنگوہی کو حیا نہیں آئی، حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نور اﷲ مرقدہٗ کو شرم نہیں آئی حاجی امداد اﷲ صاحب کی جوتیاں اٹھاتے ہوئے،آج جو شرح جامی اور کنزالدقائق پڑھ لیتا ہے وہ بھی اﷲ والوں کو خاطر میں نہیں لاتا ۔یہی وجہ ہے کہ قربانی کی کھال کے پیچھے ان کو گالیاں مل رہی ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ مولانا قاسم صاحب نانوتوی قربانی کی کھال لینے گئے تھے؟ مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کسی کے دروازے پرگئے تھے؟ شاہ ولی اﷲ محدث گئے تھے؟