اہل محبت کی شان |
ہم نوٹ : |
|
دیتا۔ایک مرتبہ شاہ عبدا لغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ جونپور میں ایک مشاعرہ تھا جس کا مصرع طرح یہ تھا ؎ کوئی نہیں جو یار کی لادے خبر مجھے ہر شاعر نے اس پر اپنا اپنا مصرع پیش کیا مگر آہ! ایک بالکل نوجوان بچے نے ایسا غضب کا مصرع لگایا کہ اس کو نظر لگ گئی اور تین دن کے بعد اس کا انتقال ہوگیا۔ اب وہ مصرع بھی سن لیجیے، اُس نے کہا کہ ؎ کوئی نہیں جو یار کی لادے خبر مجھے اے سیلِ اشک تو ہی بہا دے اُدھر مجھے خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہمارے بابا حضرت آدم علیہ السلام سے جو چوک ہوگئی تھی کہ انہوں نے گیہوں کھالیا تھا تو اس کی معافی میں رو رو کر اللہ سے معافی بھی حاصل کرلی اور خلافت اور نبوت بھی حاصل کرلی، رونے سے اپنی بندگی پر تاجِ نبوت حاصل کرلیاتھا توبابا کی میراث یہی رونا اور آہ و زاری کرنا ہے، جیسے رونے سے بابا کا کام بنا بچوں کا کام بھی ایسے ہی بنے گا لہٰذا یادرکھو کہ یہی رونا اور آہ و زاری کرنا ہماری مغفرت کا بڑا سامان ہے۔ اللہ کی یاد میں رونے کو خواجہ صاحب فرماتے ہیں ؎ جب فلک نے مجھ کو محرومِ گلستاں کردیا اشک ہائے خوں نے مجھ کو گل بداماں کردیا یعنی تقدیرِ الٰہی سے جب ہم جنت سے نیچے اُتار دیے گئے تو خون کے آنسو رونے سے، ندامت، استغفار و توبہ کرنے سے جنت ہمارے دامن میں آگئی۔ ارے جب اﷲ مل گیا تو جنت تو مخلوق ہے۔ بھئی! جس کو اﷲ مل گیا تو جنت کا درجہ زیادہ ہے یا اﷲ کا؟ اﷲ والے اﷲ کو اسی دنیا میں پاجاتے ہیں مگر یہاں ایک بات سن لیجیے کہ یہاں اللہ کیسے ملتا ہے؟ اﷲوالوں سے اﷲ کو مانگیے حضرت مولانا شاہ عبد الغنی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ اگر مٹھائی والے سے کوئی جا کر کہے کہ مجھے دو گز کپڑا دے دو تو وہ کہتا ہے کہ کیا دماغ خراب ہے؟ دماغ کے ڈاکٹر