اولیاء اللہ کی پہچان |
ہم نوٹ : |
|
اور ؎ تمنا ہے کہ اب کوئی جگہ ایسی کہیں ہوتی اکیلے بیٹھے رہتے یاد ان کی دل نشیں ہوتی ستاروں کو یہ حسرت ہے کہ وہ ہوتے مرے آنسو تمنا کہکشاں کو ہے کہ میری آستیں ہوتی دِکھاتے ہم تمہیں اپنے تڑپنے کا مزہ لیکن جو عالم بے فلک ہوتا جو دنیا بے زمیں ہوتی جب ہم اﷲ کی یاد میں تڑپ کر اوپر جاتے ہیں تو ہم کو آسمان روکتا ہے، نیچے تڑپ کے آتے ہیں تو زمین روکتی ہے۔ ایک اللہ والے کا شعر ہے ؎ نہیں کرتے ہیں وعدہ دید کا وہ حشر سے پہلے دلِ بے تاب کی ضد ہے ابھی ہوتی یہیں ہوتی اہل اللہ سے بدگمانی کرنے والو! سن لو کہ خواجہ صاحب کیا فرماتے ہیں، اس سے پتا چلتا ہے کہ اللہ والوں کی زندگی کس طرح گزرتی ہے ؎ پتا چلتا کہ غم میں زندگی کیوں کر گزرتی ہے ترے قالب میں کچھ دن کو مری جانِ حزیں ہوتی کسی اللہ والے کی جان تمہارے جسم میں ڈال دی جائے تب پتا چلے گا کہ وہ کتنی تلوار کھاتے ہیں، ہر گناہ سے بچتے ہیں، اللہ کے لیے ہر وقت غم اُٹھاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ شہیدوں کے ساتھ اُٹھائے جائیں گے۔ جو عورتوں سے نظر بچائے گا، بُرے بُرے گندے تقاضوں کا خون کرے گا، بُری خواہش پر اللہ کے حکم کا چاقو چلائے گا وہ قیامت کے دن شہیدوں کے ساتھ اُٹھایا جائے گا، کافر سے لڑکر گردن پر جو تلوار چلتی ہے اس خون کو دنیا دیکھتی ہے لیکن جو اندر ہی اندر تقویٰ کے لیے اپنی بُری خواہشات کا خون کررہے ہیں اس خون کو صرف اللہ دیکھتا ہے۔ دیکھ لوتفسیر بیان القرآن میں ہے کہ سالکین اور جہادِ اکبر یعنی نفس کامقابلہ کرکے جو لوگ گناہ چھوڑتے ہیں