اولیاء اللہ کی پہچان |
ہم نوٹ : |
|
میں میں اپنے ہاتھی پر بیٹھ کر داخل ہوسکوں۔ تو بزرگانِ دین فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کو اپنا ولی بنانا چاہتے ہیں اس کا دل اتنا بڑا بنا دیتے ہیں کہ وہ اللہ کے حکموں پر جان دیتا ہے، خدا کی ناراضگی کو وہ اپنی موت سمجھتا ہے۔ اس مثال سے بات سمجھ میں آگئی کہ جس کا دل اللہ اپنے لیے تجویز کرے گا اس کا دل بڑا بنائے گا یا نہیں؟ جس طرح راجہ مخلوق ہوکر غریبوں کا گھر بناتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ جس کے دل کو اپنا گھر بناتے ہیں اس کا دل بھی بڑا کردیتے ہیں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ بادہ در جو شش گدائے جوشِ ما است چرخ در گردش اسیرِ ہوشِ ما است یہ شراب کیا جانے مستی کو؟ اس کی مستی میری مستی کی گدا ہے اور پورا آسمان میرے دل کا ادنیٰ قیدی ہے، میرے ہوش کا قیدی ہے۔ اور فرماتے ہیں کہ اولیاء اللہ کےجسم کی کمزوری دیکھ کران کو حقیر مت سمجھو ؎ ظاہرش را پشّۂ آرد بچرخ باطنش باشد محیط ہفت چرخ اگرچہ اولیاء اللہ کا ظاہر کمزور ہے کہ اگر انہیں ایک مچھر بھی کاٹ لے تو بے چارے پریشان ہوجاتے ہیں، لیکن ان کا دل ساتوں آسمانوں کو اپنے اندر لیے ہوئے ہوتا ہے، ارے! جب آسمان والے کو لیے ہوئے ہیں، جب آسمان کے خالق کو اپنے اندر رکھتے ہیں تو آسمانوں کی کیاحقیقت ہے؟ ایک بزرگ سے کسی نے کہا کہ حضور! لوگ آپ کو شاہ صاحب شاہ صاحب کہتے ہیں تو آپ کے پاس کتنا سونا ہے؟ وہ سمجھتا تھا کہ شاہ ہونے کے لیے سونا ہونا ضروری ہے،اس اللہ والے نے کہا ؎ بخانہ زر نمی دارم فقیرم ولے دارم خدائے زر امیرم میرے گھر میں سونا نہیں ہے میں فقیر ہوں لیکن میں سونے کے خالق، سونے کے پیدا کرنے والےکواپنے دل میں رکھتا ہوں، تم اپنے دل میں مخلوق رکھتے ہو، میں خالق رکھتا ہوں، تم