تحفہ ماہ رمضان |
ہم نوٹ : |
|
بھی بھرلو، چاہے دن بھر کھٹی ڈکار آتی رہے، لہٰذا اتنا نہ کھاؤ۔ اللہ پر بھروسہ رکھو۔ اتنا کھاؤ جو ہضم ہوجائے تو طاقت زیادہ رہے گی۔ تجربہ کی بات کہتا ہوں کہ جن لوگوں نے زیادہ ٹھونس لیا تاکہ دن بھر بھوک نہیں لگے، اُن کو زیادہ کمزوری محسوس ہوئی، معدے کا نظام خراب ہوگیا، دن بھر کھٹی ڈکاریں آئیں اور کمزوری زیادہ ہوئی۔ سحری کھانا سنت ہے۔ اگر اتنا ضروری ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم واجب کردیتے لہٰذا سنت میں اتنی زیادہ محنت مت کرو کہ ٹھونسا ٹھونس مچادو۔ ایک کھجور کھاکر پانی پینے سے بھی سنت ادا ہوجائے گی۔ اگر سحری کو کچھ نہ ہو یا بھوک نہ ہو تو ایک گھونٹ پانی سے بھی سنت ادا ہوسکتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس سنت کو اتنا آسان فرمایا، پھر آپ کیوں اتنی زیادہ زحمت فرماتے ہیں۔ اللہ پر بھروسہ رکھو، اللہ تعالیٰ روزہ کو آسان فرمادیتے ہیں، اس لیے گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ اور اس مبارک مہینے میں اللہ سے رزقِ حلال مانگو اور رزقِ حرام چھوڑنے کی تدبیر کرو۔ رو رو کر اللہ سے دعائیں مانگو اور کوشش کرو، حلال تلاش کرو۔ لیکن جب تک رزقِ حلال نہ مل جائے جوش میں آکر رزقِ حرام کا دروازہ مت چھوڑو۔ یہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا مشورہ ہے۔ بعض لوگوں نے حرام چھوڑ دیا اور حلال بھی نہ پایا تو شیطان آگیا اور کہا کہ تم نے تو اللہ کے لیے حرام چھوڑا تھا لیکن اللہ نے تمہیں حلال نہیں دیا۔ اس طرح اللہ سے بدگمان کردیا اور بہت سے کافر ہوگئے، لہٰذا کفر سے بچانے کے لیے یہ مشورہ دیا گیا ہے۔ کفر سے بہتر ہے کہ تم نادم گناہ گار رہو اور کوشش کرتے رہو اور نیت کرلو کہ جب حلال مل جائے گا تو جتنی حرام آمدنی کھائی ہے اُس کو صدقۂ واجبہ میں تھوڑا تھوڑا کرکے ادا کردیں گے۔ نیت کرلو، اللہ کے ہاں نیت پر بھی مغفرت کی اُمید ہے۔ آخرمیں عرض کرتا ہوں دوستو! کہ میرا دردِدل آپ سے گزارش کرتا ہے کہ ایک سانس بھی اللہ تعالیٰ کو ناراض نہ کرو۔ اس سے بڑھ کر مبارک بندہ کوئی نہیں ہے۔ مولانا رومی نے صرف دو آدمیوں کو مبارک باد پیش کی ہے ؎ اے خوشا چشمے کہ آں گریانِ اوست یعنی مبارک ہیں وہ آنکھیں جو اللہ کی یاد میں رو رہی ہیں۔ اور ؎ اے ہمایوں دل کہ آں بریانِ اوست