تحفہ ماہ رمضان |
ہم نوٹ : |
|
تحفۂ ماہِ رمضان نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّابَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ 1؎روزہ کی فرضیت میں شانِ رحمت کا ظہور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے رمضان کی فرضیت کو کس طرح سے بیان فرمایا،یہ بھی اللہ کے اللہ ہونے کی دلیل ہے کہ وہ حاکم محض نہیں ہے ارحم الراحمین بھی ہے۔ جو حاکم ہوتا ہے وہ تو مارشل لا کی سی بات کرے گا کہ روزہ رکھنا پڑے گا، خبردار! کھال کھنچوا دوں گا، بھوسہ بھروا دوں گا لیکن اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے کتنے پیارے انداز میں فرمایا کہ ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا جاتا ہے۔ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ گھبرانا مت تم سے پہلے بھی روزہ فرض تھا۔ پہلے انسانوں نے بھی روزہ رکھا ہے یعنی یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ پچھلے لوگوں پر روزے کے فرض ہونے کا تذکرہ کرنا یہ اپنے غلاموں پر روزے کو آسان کرنے کی تدبیر ہے کہ روزہ کوئی ایسی مشکل بات نہیں ہے کہ سحری سے لے کر غروب تک خالی پیٹ رہنے سے کوئی مرجائے گا۔ تم سے پہلے بھی لوگ روزہ دار رہے ہیں، روزہ بھی رکھا اور زندہ بھی رہے، لہٰذا اے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت! تم پریشان نہ ہونا۔ تھوڑی سی مشقت ہے لیکن اس کا انعام کیا ہے؟ انعام اتنا بڑا ہے کہ جس کو دنیا _____________________________________________ 1؎البقرۃ: 183