تحفہ ماہ رمضان |
ہم نوٹ : |
|
کے خوف کی چھڑی لگے اور جنت کا مراقبہ کرو تاکہ جنت کی نعمتوں کا لُوسن ملے۔ اسی لیے جنت کی نعمتوں کو تفصیل سے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا کہ وہاں حوریں ہوں گی، دریا ہوں گے، شہد کی نہریں ہوں گی، دودھ کا دریا ہوگا، پانی کا دریا ہوگا اور حوروں کا ڈیزائن تک پیش کیا کہ اُن کی آنکھیں بڑی بڑی ہوں گی تاکہ یہ ہمارے نالائق بندے دنیا میں کسی غیرمحرم عورت کی ڈیزائن کو دیکھ کر اپنے اصلی وطن کی ڈیزائن کو نہ بھول جائیں تاکہ اُن کو یاد رہے کہ چند دن کی بات ہے، یہ چند دن کا مجاہدہ ہے، پھر ہمیشہ کے لیے عیش ہے۔ اور جس کو جنت میں دائمی عیش ملنے والا ہے اُس دائمی عیش کا عکس اور فیضان دنیا ہی میں نظر آتا ہے۔ جیسے چڑیا ایک ہزار میل پر ہے مگر اُس کا سایہ زمین پر پڑتا ہے تو جن کے لیے جنت مقدر ہے تو جنت کا سایہ اُن کے دل پر کروڑوں میل سے پڑتا ہے جس کی وجہ سے اللہ والوں کو آپ دیکھیں کہ کیسے مسکراتے رہتے ہیں، کیسے ہنستے رہتے ہیں، اُن کے دل میں کیسا اطمینان رہتا ہے کہ پریشان بھی اُن کے پاس جاتا ہے تو کہتا ہے کہ میری پریشانی خودبخود بلا کسی دوا کے غائب ہوگئی۔ امریکا سے ایک صاحب آتے ہیں، اُن کو ڈپریشن ہے، وہ کیپسول اور ٹکیہ کھاتے ہیں لیکن خانقاہ میں قدم رکھتے ہیں تو کہتے ہیں سب کیپسول اور ٹکیہ ختم۔ دواؤں کی ٹکیہ ختم مگر انڈے کی ٹکیہ کھلادیتا ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اللہ والوں کی صحبت نعمتِ مکانی ہے اور رمضان شریف نعمتِ زمانی ہے۔ اللہ والوں کے ساتھ رہائش ہو اور رمضان کا مہینہ ہو تو جب زمان اور مکان کے دو دو انجن لگ جائیں گے تو اللہ کے قرب کا راستہ جلد طے ہوگا۔ اسی لیے اکثر بزرگوں نے مریدوں کو رمضان المبارک میں اپنے ہاں اکٹھا کیا۔ شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں بھی بڑے بڑے علماء رمضان میں پہنچ جاتے تھے، لیکن جس کو لالچ ہوتی ہے وہی پہنچتا ہے۔ بغیر لالچ دنیا میں کوئی کام نہیں ہوتا۔ لیلیٰ کی لالچ میں مجنوں نے جنگل میں کتنی آہ و فغاں کی، کیسی کیسی مصیبتیں اُٹھائیں۔ تازیانۂ عبرت آج سے چالیس سال پہلے میں عزیزآباد سے گزر رہا تھا کہ ایک بڑے میاں شیروانی پہنے ہوئے مجھ سے مصافحہ کرکے کہنے لگے کہ مجھے ایک منٹ چاہیے۔ میں نے کہا کہ کیا بات