تحفہ ماہ رمضان |
ہم نوٹ : |
|
میں بڑا انعام مل جائے تو بڑی سے بڑی مشقت اُٹھانے کو تیار ہوجاتا ہے مثلاً جون کا مہینہ ہے، گرمی شدید ہے، لُو چل رہی ہے اور حکومت نے اعلان کردیا کہ جو اس وقت کیماڑی تک پیدل جائے گا اُس کو پیٹرول پمپ کا ایک پلاٹ ملے گا جو پچاس لاکھ کا ہوگا اور مفت میں ملے گا۔ تو اس وقت کتنے لوگ اے سی میں بیٹھے ہوئے اے سی سے کہیں گے تیری ایسی تیسی۔ روزہ اور صحبتِ اہل اللہ کا ایک انعامِ عظیم تو اللہ تعالیٰ نے روزے کا انعام بیان فرمایا لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ کہ تم روزے کی برکت سے میرے دوست بن جاؤگے، ولی اللہ بن جاؤگے، صاحبِ تقویٰ بن جاؤگے، میں تمہاری غلامی پر اپنی دوستی کا تاج رکھ دوں گا اور یہی انعام اللہ تعالیٰ نے اللہ والوں کے پاس بیٹھنے والوں کے لیے رکھا ہے۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو یعنی میرےدوست بن جاؤ کیوں کہ اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ 2؎ متقی ہی میرے دوست ہیں۔ مگر تقویٰ مشکل ہے،اس کو آسان کرنے کے لیے وَ کُوۡنُوۡامَعَ الصّٰدِقِیۡنَ 3؎ نازل فرمایا کہ اہل تقویٰ کی صحبت میں رہو۔ جیسی صحبت میں آدمی رہتا ہے ویسا ہی ہوجاتا ہے۔ بعض جاہل شاعروں کی صحبت میں رہنے سے اشعار کہنے لگے۔ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک دیہاتی آیا اور اُس نے کہا کہ میں نے ایک شعر کہا ہے۔ اب دیہاتی ہل جوتنے والا مگر شعر ایسا کہا کہ اُس کے مضمون سے پڑھے لکھے حیرت میں پڑگئے کیوں کہ وہ شاعروں کے پاس رہتا تھا۔ جیسی صحبت ہوتی ہے انسان ویسا ہی بن جاتا ہے۔ تو اُس نے کہا کہ؎ نکل بھاگا ترے کوچے کی جانب ترا دیوانہ نہ ٹھہرا ایک دم جنت میں وحشت اس کو کہتے ہیں یہ شعر ایسے سمجھ میں نہیں آئے گا۔ شعر کا مفہوم یہ ہے کہ بالفرض اللہ تعالیٰ کی طرف سے _____________________________________________ 2؎الانفال:34 3؎التوبۃ : 119