تحفہ ماہ رمضان |
ہم نوٹ : |
|
اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا۔ پھر یہاں کراچی آکر تفسیر روح المعانی دیکھی تو جدہ میں جو مضمون دل میں عطا ہوا تھا وہی تفسیر روح المعانی میں ملا کہ نظرباز کے چہرے کے مختلف ڈیزائن بنتے ہیں۔ کبھی اوپر دیکھتا ہے، کبھی نیچے دیکھتا ہے، کبھی داہنے دیکھتا ہے، کبھی بائیں کبھی آگے کبھی پیچھے اور اس طرح اُس کے چہرے کی مختلف ڈیزائن اور صنعتیں بنتی رہتی ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ کہ ہم تمہاری مختلف قسم کی صنعتوں کو اور چہرے کی مصنوعات اور بناوٹوں کو دیکھتے رہتے ہیں کہ تمہاری آنکھیں کبھی نیم باز ہوتی ہیں آدھی کھلی اور آدھی بند مارے شرم کے، اور کبھی بہت زیادہ کھلی ہوں گی، کبھی گوشے سے داہنی طرف دیکھے گا، کبھی بائیں طرف، کبھی کالا چشمہ لگا کر دیکھے گا تاکہ کسی کو پتا نہ چلے کہ بڑے میاں کدھر دیکھ رہے ہیں۔تو علامہ آلوسی نے اس کی چار تفسیریں پیش کیں جو میں علمائے دین کے لیے پیش کرتا ہوں کیوں کہ اس مجمع میں علماء بھی تشریف لاتے ہیں۔ پہلی تفسیر اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌ بِاِجَالَۃِ النَّظَرِ نگاہوں کو گھما گھماکے تمہارا حسینو ں کو دیکھنا اللہ اس سے باخبر ہے۔ موٹر سائیکل سے جارہے ہیں اور اسٹاپ پر پیچھے دیکھ رہے ہیں۔ آنکھوں سے دیکھا ہے ؎ یہ واقعہ مرا خود اپنا چشم دید ہوا موٹر سائیکل پر جارہے ہیں اور ٹریفک چل رہا ہے کہ کوئی شکل نظر آگئی تو اب بار بار مڑ مڑ کر دیکھ رہا ہے، اسی لیے ایکسیڈنٹ ہوجاتے ہیں، کتنی جانیں ختم ہوگئیں۔ حسن نے کتنوں کو قتل کردیا مگر قصور عشق ظالم کا ہوتا ہے۔ کیا کوئی حسین کہتا ہے کہ کار چلاتے ہوئے مُڑ مُڑ کے مجھے دیکھتے جاؤ۔ نظربازی سے کتنے ایکسیڈنٹ میں مرگئے اور کتنے ایک ہی نظر میں پاگل ہوگئے۔ زندگی بھر اُس حسین کے عشق سے چھٹکارا نہیں ملا، لاکھ لاحول پڑھ کر تھتکارا مگر چھٹکارا نہیں ملا۔ نظر کی لعنت بہت خطرناک چیز ہے۔ دل کا قبلہ ہی بدل جاتا ہے، نماز میں کہے گا منہ میرا طرف کعبہ شریف کے مگر دل کے سامنے شیطان اسی حسین کا فیچر رکھے گا۔ یہ شیطان بہت بڑا ٹیچر ہے