مسئلہ:جس کی دویازیادہ بیویاں ہوں ان کے درمیان برابری کرنا فرض ہے۔ رسولِ خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس کے پاس دوبیویاں ہوں اور وہ ان کے درمیان انصاف نہ کرے تو قیامت کے روز اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو گرا ہوا ہوگا۔5
رفیقِ سفر کے حقوق: سفر میں تنہا جانے سے رسولِ خدا ﷺ نے منع فرمایا ہے اور سفر کے ساتھیوں کی خبر گیری اور انکی راحت رسانی کی بڑی تاکید فرمائی ہے بلکہ یہاں تک فرمایا ہے کہ
سَیِّدُ الْقَوْمِ فِي السَّفَرِ خَادِمُھُمْ فَمَنْ سَبَقَھُمْ بِخِدْمَۃٍ لَّمْ یَسْبِقُوْہٗ بِعَمَلٍ إِلَّا الشَّھَادَۃَ۔6
سفر میں وہی سردار ہے جو سفر میں ساتھیوں کی خدمت کرے۔ جوشخص اپنے ساتھیوں سے خدمت میں بڑھ گیا تو اس کے ساتھی کسی عمل کے ساتھ اس سے نہیں بڑھ سکتے۔ ہاں، اگر ساتھیوں میں سے کوئی شہید ہوجائے تو وہی بڑھ جائے گا۔
ایک حدیث میں ہے کہ رسولِ خداﷺ نے ایک مرتبہ سفر میں ارشاد فرمایا: جس کے پاس سواری پر جگہ ہو اس کو چاہیے کہ بغیر سواری والے کو سوار کرے، اور جس کے پاس خوراک بچی ہو وہ بغیر خوراک والے کوکھلادے۔ اور اسی طرح دوسری چیزوں کے متعلق ارشاد فرمایا۔
حضرت ابو سعید ؓ فرماتے ہیں کہ اس کی آپ نے اس قدر تاکید فرمائی کہ ہم نے یہ یقین کرلیا کہ بچی ہوئی چیز میں ہم میں سے کسی کو بچا کر رکھنے کاحق ہی نہیں ہے۔1
ایک مرتبہ کسی سفر میں چند صحابہ ؓ نے بکری ذبح کرنے کاارادہ کیا اور اس کاکام تقسیم کرلیا۔ ایک نے اپنے ذمہ ذبح کاکام لے لیا، دوسرے نے کھال نکالنا، کوئی پکانے کاذمہ دار ہوگیا۔ رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا کہ لکڑیاں جمع کرنا میرے ذمہ ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یہ بھی ہم کرلیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ تو میں جانتا ہوں کہ تم بخوشی کرلو گے، مگر مجھے یہ پسند نہیں کہ جماعت سے ممتاز رہوں اور خدا بھی اس کوپسند نہیں کرتا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ بدر کی لڑائی میں فی اونٹ تین آدمی شریک تھے، چنانچہ ابو لبابہ اور علی بن ابی طالب ؓ رسولِ خداﷺ کی سواری میں شریک تھے۔
دونوں کابیان ہے کہ جب آںحضرتﷺ کی نوبت پیدل چلنے کی آتی تو ہم دونوں عرض کرتے کہ آپ سوار ہی رہیں، آپ کے بدلے ہم پیدل چل لیں گے۔ آپ نے جواب دیا کہ
مَا أَنْتُمَا بِاَقْویٰ مِنِّيْ وَمَا أَنَا بِأَغْنٰی عَنِ الْأَجْرِ مِنْکُمَا۔2
تم مجھ سے زیادہ طاقتور نہیں ہو، اور نہ میں بہ نسبت تمہارے اجر سے بے نیاز ہوں(بلکہ مجھ کو بھی اجروثواب چاہیے،پھر میں کیوں سوار ہوں)۔