ہے کہ کوئی شخص یہ نہ کرے کہ کسی کو اس کی جگہ سے اُٹھادے اور خود بیٹھ جائے، لیکن بیٹھنے والے کھل جایا کریں اور مجلس میں گنجایش نکال لیاکریں۔1
حق اُسی کا ہے: رسولِ خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جوشخص اپنی مجلس سے اٹھے اور پھر واپس آجائے تو اپنی جگہ کا وہی زیادہ حق دار ہے۔2
فائدہ: مطلب یہ ہے کہ جوشخص کسی ضرورت سے (مثلاً تھوکنے کو، ناک صاف کرنے کو، یاکسی بات کاجواب دینے کو) اپنی جگہ سے اُٹھ کرجائے اور ضرورت پوری کر کے ابھی ابھی آنے والا ہو تو اس جگہ کاگھیرنا جائز نہیں ہے۔ اگر اس کے آنے سے پہلے کوئی شخص اس کی جگہ گھیرلے تو اس کو یہ حق ہے کہ اپنی جگہ بیٹھ جائے اور اپنی جگہ سے دوسرے کوہٹادے۔
مشترکہ جگہ: جس جگہ سب کاحق ہو اس کامسئلہ یہ ہے کہ جو پہلے پہنچ جائے وہی حق دار ہوگیا، مگر یہ جائز نہیں ہے کہ پہلے سے کوئی شخص اپنا کپڑارکھ کر اس جگہ کو گھیرلے۔ حدیث شریف میں ہے کہ حج کے موقع پر رسولِ خداﷺ سے عرض کیا گیا کہ آپ کے لیے دیگر حجاج سے پہلے مقامِ منیٰ میں خیمہ نصب کردیاجائے؟آپﷺ نے فرمایا:
لَا، مِنٰی مُنَاخُ مَنْ سَبَقَ۔3
نہیں جو پہلے پہنچ جائے منیٰ اسی کاحق ہے۔
جو حضرات مسجد میں پہنچ کر صف میں کپڑارکھ کر اپنا حق قائم کرتے ہیں وہ غلطی ہی نہیں بلکہ ظلم کرتے ہیں۔ ہاں، اگر تھوکنے یاناک صاف کرنے یاکسی ضرورت سے جاکر فوراً ہی آنے کاارادہ ہوتو کپڑارکھ کر چلے جانے میں مضائقہ نہیں۔
رسولِ خداﷺ کی مجلس وغیرہ کے حالات
حضرت حسینؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ماجد حضرت علی کرّم اللہ تعالیٰ وجہہ سے حضورﷺ کے مکان میں تشریف رکھنے کے حالات دریافت کیے تو فرمایا کہ
آںحضرت ﷺ مکان میں تشریف فرما ہونے کے وقت اپنے وقت کے تین حصے فرمالیتے تھے: ایک حصہ اللہ تعالیٰ کے لیے ( کہ اس میں نماز وغیرہ پڑھتے)۔ دوسرا حصہ گھروالوں کے لیے( کہ ان کے حقوق ادا فرماتے مثلاً :ہنستے بولتے، ضروریات معلوم کرتے)۔ تیسرا حصہ اپنے نفس کے لیے۔ پھر اس اپنے والے حصہ کو بھی اپنے اور زائرین کے درمیان تقسیم فرمالیتے تھے کہ اس وقت خاص خاص اصحاب حاضر ہوتے تھے جن کے ذریعہ عام حضرات تک مجلس کے مضامین پہنچاتے تھے۔ اور آپ حاضرین سے کوئی چیز( کھانے پینے یادین کی) پوشیدہ نہ رکھتے تھے۔ وقت کے اس حصہ میں جو اُمت کے لیے تھا آپ کاطرزِ عمل یہ تھا کہ ان آنے والوں میں اہلِ فضل کو (حاضری کی اجازت دینے میں )ترجیح دیتے تھے